عکسِ ذات ـ ایک باطنی مکالمہ

تحریر۔ طاہر منِظور

آج کی یہ نشست فقط ایک تقریب نہیں، بلکہ ایک لمحۂ واردات ہے ـ جہاں وقت اپنی گردش تھامے کھڑا ہے، اور لفظ دھڑکنوں میں ڈھل کر سنائی دیتے ہیں۔ ہم یہاں صرف کاغذ پر ثبت سطور پڑھنے نہیں آئے، بلکہ اُس ندا کو سننے آئے ہیں جو روح کی تہوں سے ابھرتی ہے ـ وہ آواز، جو کسی ایک وجود سے نکل کر ہر سننے والے کے باطن میں ایک خاموش ارتعاش پیدا کرتی ہے؛ جیسے کوئی بھولی ہوئی صدا، کسی پرانی یاد کی صورت، دل میں پھر سے جاگ اُٹھے

محترمہ زوبیہ انور کی عکسِ ذات کوئی عام تخلیق نہیں ـ یہ ایک باطنی سفر ہے، جو انسان کو اُس کے اپنے اندر کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسا سفر، جو خاموشی سے مکالمہ کرتا ہے، آواز سے نہیں ـ مگر پھر بھی ہر حساس دل میں ایک لطیف ارتعاش پیدا کر دیتا ہے۔ یہ کتاب صرف ذہن کو مخاطب نہیں کرتی، بلکہ دل کے اُن دروازوں پر بھی دستک دیتی ہے جو اکثر عمر بھر بند رہتے ہی

عکسِ ذات دو لفظوں کو ملانے سے بنتا ہے:
عکس
وہ پرچھائیں، جو پل بھر کو ظاہر ہو، مگر برسوں کی پہچان بن جائے۔ ایسا عکس جو مکمل شبیہ نہ ہو، لیکن اس میں اصل کا کوئی ایسا اشارہ چھپا ہو جو آنکھ سے زیادہ دل کو نظر آئے۔
ذات
وہ خاموش روشنی، جو صرف دل کی آنکھ سے دکھائی دیتی ہے؛ ایک ایسا آئینہ، جس میں جھانکنا محض دیکھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ ذات وہ گہرائی ہے جہاں انسان کو خود سے ملنے کے لیے خاموشی، سچائی، اور جُرأتِ نظر درکار ہوتی ہے۔
ایسے ہی لمحے میں علامہ اقبال کا ایک شعر رہنمائی دیتا ہے:
“دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب،
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں”
یہ شعر فقط ایک فکر نہیں بلکہ عکسِ ذات کا نچوڑ محسوس ہوتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ معرفتِ ذات کے لیے وہ بینائی درکار ہے جو باہر نہیں، اندر سے ابھرتی ہے ـ وہ نگاہ جو عکس کی سطح پر نہیں ٹھہرتی، بلکہ اس کے ماورا تک رسائی حاصل کرتی ہے۔
عکسِ ذات دراصل اسی باطنی نگاہ کو جگانے کی ایک لطیف اور خاموش کوشش ہے ـ ایک ایسا آئینہ جو صرف دکھاتا نہیں، بلکہ جھانکنے کی جرأت مانگتا ہے۔
کتاب کا سرورق دیکھا، تو یوں لگا جیسے کوئی پرانا مراقبہ جاگ اُٹھا ہو – ایک درویش، سماع کی کیفیت میں، اپنے ہی گرد ایک لطیف دائرہ کھینچتا ہوا۔ سبز رنگ کی پُرسکون لطافت ـ جیسے دل پر مہربان ہو جائے۔ اور وہ بلند ہاتھ ـ جو صرف دعا نہیں، بلکہ سپردگی کی زبان بن چکے ہوں۔
زوبیہ انور نے جس دل سوزی سے اپنے اندر کے تجربات کو صفحے پر منتقل کیا ہے، وہ محض لکھنے کا عمل نہیں، بلکہ عبادت کی کیفیت ہے۔ یہ تحریر نہ وعظ ہے، نہ حکم ـ یہ وہ مشاہدہ ہے، جو خامشی کی کوکھ میں پلتا ہے، اور پھر لفظ بن کر جاگتا ہے۔
جیسا کہ مصر کے عظیم ناول نگار نجیب محفوظ نے کہا:
“خامشی وہ گفتگو ہے جو صرف وہی سن سکتا ہے جو اندر سے بیدار ہو۔”
اور زوبیہ کی تحریر، اسی بیداری کی صدا ہے۔
“وضوِ قلب” – کیسا پاکیزہ اور غیرمعمولی تصور ہے! ایک ،،. ندامت، حیا، اور شعور سے ادا ہوتا ہے۔ جب دل حسد سے پاک ہو جائے، زبان غیبت سے رک جائے، اور آنکھ جھوٹ کو پہچاننے لگے – تب جا کر یہ وضو مکمل ہوتا ہے۔
جیسا کہ مولانا رومی نے فرمایا:
“پاکی وہ نہیں جو پانی سے حاصل ہو، پاکی وہ ہے جو دل کے اندر کی سچائی سے جنم لے۔”
عکسِ ذات میں یہی باطنی تطہیر نمایاں ہے – جو انسان کو محض عبادت کے نہیں، بلکہ محبت کے لائق بھی بناتی ہے۔
زوبیہ انور نے یہ کتاب اپنی والدہ کے نام معنون کی ـ اور یہ صرف ایک جذباتی اقرار نہیں، بلکہ ایک فکری اعلان ہے: ماں صرف زندگی دینے والی نہیں، بلکہ زندگی کو معنی بخشنے والی ہستی ہے۔
جیسا کہ خلیل جبران نے کہا:
“ماں وہ کائنات ہے جہاں ہر بچہ پہلی بار خدا کو محسوس کرتا ہے۔”
کتاب میں وہ التجا بھی شامل ہے جو ہمارے سماج کے لیے آئینہ ہے ـ کہ مائیں اپنی بیٹیوں سے دوستی کریں، ان کے سوالوں سے نہ گھبرائیں، اور مکالمے کو روایت کی زنجیروں میں قید نہ کریں۔ یہی وہ شفاف گفتگو ہے جس سے اگلی نسل روشن ہو سکتی ہے۔
عکسِ ذات میں اٹھنے والے سوالات صرف نوجوان نسل کے نہیں ـ وہ ہر اُس شخص کے ہیں جو زندگی کو محض گزارنا نہیں، جینا چاہتا ہے؛ جو اپنی اندرونی دنیا کی دراڑوں میں روشنی تلاش کرتا ہے۔
یہ تحریر ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ ہر زخم، دراصل ایک راز ہے – اور ہر آزمائش، ایک دروازہ۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم میں وہ حوصلہ ہو، جو اُس دروازے کو کھولنے کا فن جانتا ہو۔
“زوبیہ کا پیغام نہایت سادہ ہے ـ اور اسی سادگی میں عظمت چھپی ہے: منفی سوچ کو رخصت دو، غیبت کو زبان سے نکالو، معافی کو دل کا زیور بناؤ، اور شکر کو اپنی سانسوں کا لباس بنا لو۔
یہ چار عناصر وہ آئینے ہیں جو دل کو اس کے اصل چہرے سے روبرو کرتے ہیں ـ اور وہی چہرہ، خدا کی پہچان کا پہلا دروازہ ہے۔
عکسِ ذات صرف پڑھنے کی کتاب نہیں ـ یہ محسوس کیے جانے والا تجربہ ہے۔ یہ لفظوں کا نگر نہیں، احساسات کی بستی ہے۔ جو اس میں داخل ہوتا ہے، وہ صرف الفاظ نہیں پڑھتا ـ وہ اپنے اندر کے سچ کو سننے لگتا ہے۔
اور جو خود سے مل جائے، وہ خدا سے کب دور رہتا ہے؟”
میں محترمہ زوبیہ انور کو اس روحانی تحفے پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
ان کی تحریر نے دل کو صرف چھوا نہیں –
دل کو بولنے کا ہنر بھی عطا کیا۔
دعا ہے کہ عکسِ ذات ہر باطن کے مسافر میں وہ چراغ جلائے –
جس کی لو باہر نہیں، اندر جلتی ہے –
اور جس کی روشنی باہر تک پھیلتی ہے، وہ اسی لو کا فیض ہو۔

Comments (0)
Add Comment