شفق کے کنارے سورج دھیرے دھیرے جھک رہا تھا۔ اسلام آباد کے ایک گوشہ نشین کمرے میں بیٹھے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک موٹی عینک کے پیچھے سے دھندلے منظر کو تک رہے تھے۔ ان کے چہرے پر گزرے لمحوں کی تھکن بھی تھی اور اطمینان بھی۔ یہی تو وہ دن تھا — 28 مئی 1998! یومِ تکبیر!ہر سال یہ دن آتا، مگر آج کچھ خاص تھا۔ اُن کے ذہن میں وہ لمحے گھومنے لگے جب پاکستان پر گہرے سائے چھائے ہوئے تھے، اور ہر طرف سے دباؤ تھا — امریکا، اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، سب پاکستان کو ایک ہی پیغام دے رہے تھے: “اگر تم نے ایٹمی تجربہ کیا تو تمہیں تنہا کر دیا جائے گا۔”لیکن قوم تنہا ہونے سے کب ڈرتی ہے؟ خاص کر جب اس کی شہ رگ پر دشمن پنجہ گاڑے بیٹھا ہو!
1998 کی ایک شام، مری کے پہاڑوں میں واقع ایک خفیہ مقام پر ایک خفیہ میٹنگ جاری تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف میز کے ایک طرف بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے پر سنجیدگی، فکر اور حوصلہ ہم آہنگ تھے۔ سامنے جنرل جہانگیر کرامت، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، اور DG ISI جنرل ضیاء الدین بیٹھے تھے۔
نواز شریف نے قدرے جھجکتے ہوئے کہا، “قدیر صاحب! دنیا ہم پر چڑھ دوڑی ہے۔ کلنٹن کے پانچ فون آ چکے ہیں۔ کہہ رہا ہے ہم پانچ ارب ڈالر دیں گے، آپ تجربہ مت کرو۔”
ڈاکٹر قدیر نے بے ساختہ کہا، “جنابِ وزیرِ اعظم! اگر آج ہم نے یہ موقع کھو دیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ دشمن نے پانچ ایٹمی دھماکے کر دیے ہیں، اور ہم خاموش بیٹھے ہیں۔ کیا یہ بے بزدلی نہیں؟”
جنرل جہانگیر کرامت نے آہستہ سے کہا، “ہم تیار ہیں۔ آپ حکم دیں تو چاغی کے پہاڑوں میں قیامت برپا کردیں گے۔”
کمرے میں ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی۔ پھر نواز شریف نے سب کے چہروں پر نظر دوڑاتے ہوئےمکہ میز پر مارا، بے ساختہ کہا کہ”کر دو دھماکے! دشمن کے پانچ دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کئے جائیں ،اور دنیا کو دکھادیں ہمارا غیر متزلزل عزم!”۔۔۔۔۔۔
چاغی، بلوچستان۔
ریگزار، تنہا پہاڑ، اور فوجی گاڑیوں کی قطاریں۔ یہ وہ مقام تھا جہاں پاکستانی غیرت اور علم نے مل کر ایٹمی قوت کی تصویر بنائی۔ انجینئرز، سائنسدان، سپاہی، سب دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ دن کا سورج اور رات کی ٹھنڈ دونوں نے ان کے حوصلے کو آزمایا، لیکن وہ نہ جھکے نہ تھکے۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند، جو اس تمام کارروائی کے نگران تھے، ہر کاوائی پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ چند لمحے بعد، ایک گھن گرج سنائی دی۔ زمین کانپی، پہاڑ تھرتھرا اٹھے، اور آسمان پر ایک سنہری روشنی کا دائرہ بلند ہوا۔
یہ چاغی کے پہاڑ نہیں، پاکستانیوں کے سینوں میں موجود جذبے تھے جو دھڑک اٹھے تھے!
پورے ملک میں جشن تھا۔
لاہور کی گلیوں میں نعرے گونج رہے تھے:
“پاکستان زندہ باد!”
“ڈاکٹر قدیر تیرے جان نثار، بے شمار بے شمار!”
“نواز شریف قدم بڑھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں!”
ہر ماں نے اپنے بچے کو سینے سے لگایا۔ ہر باپ نے فخر سے اپنے بیٹے کو کہا، “دیکھ بیٹا! یہ ہوتا ہے غیرت کا جواب!”
لیکن ہر فخر کی ایک قیمت ہوتی ہے۔نواز شریف پر عالمی پابندیاں لگ گئیں۔ امریکہ کا دباؤ، معیشت کا بوجھ، اور داخلی سیاست کا زہر… سب نےان پر حاویبہونے کی کوشش کی۔ مگر انھوں نے ایک بات ہر فورم پر کہی، “ہم نے دھماکہ قوم کی عزت کے لیے کیا۔ اگر وقت پھر آیا تو ہم پھر کریں گے!”ادھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جو ایک ہیرو بن چکے تھے، تنہائی کا شکار ہونے لگے۔ چند سال بعد اُن پر الزامات لگے، نظر بند کیا گیا، اور وہ شخص جو قوم کا ہیرو تھا، خاموشی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔لیکن تاریخ کے صفحات میں ہیرو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
2025 کی وہ صبح
اسلام آباد میں ایک اسکول میں یومِ تکبیر کی تقریب ہو رہی تھی۔ ایک بچی نے جب تقریر ختم کی، تو سامعین میں موجود ایک معمر شخص کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھی سائنسدان تھے، جو آج پہلی بار ایک عوامی تقریب میں شامل تھے،انکو خراج تحسین دیا جا رہا تھا۔تقریر میں کہا گیا:
“یاد رکھو! ایٹم بم دھماکہ محض ایک سائنس نہیں تھا، یہ ہماری خودداری کا اعلان تھا۔ یہ ان ماؤں کے آنسوؤں کا جواب تھا جنھوں نے 1971 میں اپنے بیٹے کھوئے تھے۔ یہ ان فوجیوں کی پکار تھی جو کشمیر کی پہاڑیوں میں دشمن کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ یہ اس قوم کی پہچان ہے جو بھوکی رہ سکتی ہے، مگر غلام نہیں۔”
ڈاکٹر قدیر کے ساتھی کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
وہ زیرِ لب بولے، “شکر ہے ہم نے اپنا فرض نبھایا۔”
یومِ تکبیر ایک دن نہیں، ایک حلف ہے۔
یہ حلف ہے دشمن کو بتانے کا کہ پاکستان صرف ایک نقشہ نہیں، ایک نظریہ ہے۔
یہ نظریہ علامہ اقبال کا خواب ہے، قائداعظم کا ارادہ ہے، اور ڈاکٹر قدیر کی محنت ہے۔
یہ جنرلز کی قربانی، سپاہیوں کی جاں بازی، اور ایک وزیراعظم کے جراتمند فیصلے کا نام ہے۔
جب بھی کوئی شک کرے کہ پاکستان اپنی حفاظت نہیں کر سکتا، تو اسے چاغی کی وہ تصویر دکھا دو…جہاں پہاڑوں نے اذان دی تھی،
جہاں مٹی نے کہا تھا:
“اللہ اکبر!”
یومِ تکبیر کی بازگشت آج ایک بار پھر فضاؤں میں گونج رہی ہے، مگر اس بار پس منظر مختلف ہے۔ حالیہ جنگ میں دشمن کی جارحیت کے سامنے جو فولادی دیوار بنی، اُس کی بنیاد 1998 میں رکھی گئی تھی، جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اُن کی ٹیم نے سائنس کی طاقت سے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ دشمن نے جب حملہ کیا، تو ہماری فوج اور فضائیہ نے نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ پوری دنیا کو بتا دیا کہ یہ وہ قوم ہے جو سائنس، جذبے اور غیرت کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ یہ فخر یومِ تکبیر کا تسلسل ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی روح سے انتہائی معذرت سے۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب…!
آج یومِ تکبیر ہے، وہ دن جس کی روشنی آپ نے اپنے خون، علم اور عشقِ وطن سے روشن کی۔ آج ہم آپ