مدرسہ سے فیلڈ مارشل تک ۔۔۔۔

شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ 0300-6668477

آج جب جنرل سید عاصم منیر فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں، تو یہ صرف ایک فوجی عہدہ نہیں، یہ ایک نظریہ کی جیت ہے، ایک خواب کی تعبیر ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ پاکستان کی نظریاتی سرزمین پر دین اور دنیا کے حسین امتزاج کا اعلان ہے۔
منگلا کے عسکری سفر سے کہیں پہلے، ایک ننھے طالب علم کی روحانی تربیت کا آغاز اُس لمحے ہوا جب اسے قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے الخلیل قرآن کمپلیکس میں داخل کیا گیا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا یہ مقدس سفر اُس ماحول سے شروع ہوا جہاں قرآن کی تعلیم کو زندگی کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ ان کے والد، سید سرور منیر، ایک دیندار استاد تھے جنہوں نے اپنے بچوں کو دینی بنیادوں پر استوار کرنے کا عزم کیا۔ حافظ خلیل احمد اور ان کے بیٹے حافظ نعیم خلیل کی رہنمائی میں سید قاسم منیر کے بعد سید عاصم منیر نے بھی قرآن حفظ کرنا شروع کیا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس نے نہ صرف ان کی شخصیت کو نکھارا بلکہ ان کے مستقبل کے ہر فیصلے میں روشنی کا مینار بن کر ساتھ رہی۔ یہی منزل کا پہلا زینہ تھا — مدرسہ سے فیلڈ مارشل تک کے سفر کا۔
“قرآن والا سپاہی آج فیلڈ مارشل بن گیا!”
یہ صرف ایک فقرہ نہیں، بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات، خوابوں اور دعاؤں کا حاصل ہے۔ قوم کے بیٹے، ایک حافظِ قرآن، ایک سادہ اور باکردار سپاہی نے آج وہ منزل پا لی جس کا خواب ہر محبِ وطن نوجوان دیکھتا ہے، مگر تعبیر صرف قسمت والوں کو ملتی ہے — اور قسمت انہیں ہی ملتی ہے جو محنت، تقویٰ اور اخلاص کی راہوں پر چلتے ہیں۔

قرآن سے مزین قدم منگلا کی چٹانوں تک کایہ سفر کسی سیاسی خاندان کے لاڈلے کا نہیں تھا، نہ ہی یہ کوئی موروثی نشست تھی۔ یہ سفر مدرسے کی مسجد سے شروع ہوا، وہیں سے قرآن حفظ کیا، اور پھر منگلا کے پہاڑوں میں جا کر وردی پہن لی۔ اُن کے ہاتھ میں اعزازی شمشیر تھمائی گئی، مگر دل میں قرآن کی روشنی تھی۔ یہی روشنی آج پاکستان کے عسکری ایوانوں میں جگمگا رہی ہے۔
جب قوموں کو قیادت ملتی ہے تو وہ ان کے ماضی، نیت، تربیت اور بصیرت سے پہچانی جاتی ہے۔ جنرل عاصم منیر کا ہر لمحہ قوم کے ساتھ جڑا رہا — خاموشی سے، اخلاص سے، بغیر کسی تماشے کے۔
ہر قدم پر دیانت، ہر مقام پر استقامت انکا خاصہ ہے۔
فوجی افسران کی دنیا میں کئی لوگ آتے ہیں، مگر کم ہی وہ ہوتے ہیں جو اداروں کو وقار دیتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر نے ڈی جی ایم آئی، ڈی جی آئی ایس آئی، کور کمانڈر، اور کوارٹر ماسٹر جنرل جیسے اہم عہدوں پر خدمات انجام دے کر ثابت کیا کہ اگر نیت نیک ہو، تو ہر عہدہ “امانت” بن جاتا ہے۔آج کی دنیا میں جہاں کرپشن، اقربا پروری اور سازشیں عام ہو چکی ہیں، وہاں ایک ایسا سپاہی جس کے دامن پر کوئی داغ نہیں، فخر کا مقام ہے۔ وہ بولتے کم ہیں، مگر ان کے عمل بولتے ہیں۔ ان کے فیصلے وقتی مقبولیت کے لیے نہیں، بلکہ آئندہ نسلوں کی حفاظت اور پاکستان کے مستقبل کے لیے ہوتے ہیں۔
آپریشن “بنیان المرصوص” — تاریخ کی خاموش فتح ہے۔اگرچہ آپریشن بنیان المرصوص کی تفصیلات قومی سلامتی کی وجہ سے پردے میں ہیں، مگر اس کے اثرات پوری دنیا نے محسوس کیے۔ دشمن کی چالیں ناکام ہوئیں، پاکستان کا دفاع مضبوط ہوا، اور اقوامِ عالم کو یہ پیغام ملا کہ پاکستان اب محض ردِ عمل میں کام نہیں کرتا — بلکہ پیشگی حکمتِ عملی سے دشمن کی بساط لپیٹ دیتا ہے۔یہ وہ کامیابی ہے جس پر گولیاں نہیں، دعائیں برسیں۔ جس میں شہرت نہیں، سچائی بولی۔ اور جس کا کریڈٹ کسی فرد نے نہیں، ادارے نے لیا — اور ادارے کا چہرہ وہی تھا: حافظِ قرآن، جنرل عاصم منیر۔حافظِ قرآن — کردار کا ستون، فیصلوں کا نور ہوتا ہے۔جب کوئی حافظِ قرآن منصبِ قیادت پر فائز ہوتا ہے تو اس کے فیصلے وقتی مفادات، سیاسی دباؤ یا ذاتی ترجیحات سے نہیں، بلکہ عدل، تقویٰ اور قومی مفاد سے جُڑے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی قیادت میں فوج ایک پیشہ ور، غیر سیاسی اور نظریاتی ادارے کے طور پر ابھری۔ان کا حافظِ قرآن ہونا محض ایک ذاتی خوبی نہیں، بلکہ ایک نظریاتی رہنمائی کا منبع ہے۔ جب دل قرآن سے جُڑا ہو، تو ہاتھ کبھی ناانصافی نہیں کرتے، اور نگاہ کبھی مفاد پرستوں کی طرف نہیں جاتی۔
پاکستان کی تاریخ میں فیلڈ مارشل کا رینک صرف ایک بار دیا گیا تھا، اور وہ بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر۔ مگر جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا اعزاز ان کے بے داغ ماضی، بے مثل خدمات، اور بے خوف قیادت کی بدولت ملا — یہ اعزاز اُن تمام اہل نوجوانوں کے لیے امید کا پیغام ہے جو آج کسی مدرسے، کسی اسکول، کسی گاؤں یا کسی چھوٹے شہر میں بیٹھے خواب دیکھ رہے ہیں۔
یہ کامیابی بتاتی ہے کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں “مدرسہ” صرف عالم نہیں پیدا کرتا، بلکہ فیلڈ مارشل بھی دے سکتا ہے!
یہ کامیابی صرف فوج کی نہیں — پوری قوم کی ہے
جب جنرل عاصم منیر فیلڈ مارشل بنے، تو صرف راولپنڈی کے جی ایچ کیو میں جشن نہ ہوا، بلکہ گلیوں میں، مسجدوں میں، مدرسوں میں، اسکولوں میں، اور ان ماؤں کے دلوں میں چراغ روشن ہوئے جنہوں نے اپنے بچوں کو قرآن پڑھایا اور حب الوطنی سکھائی۔یہ ان والدین کی کامیابی ہے جنہوں نے دنیاوی آسائشوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے بچوں کو سچ، صداقت اور استقامت کا درس دیا۔ یہ اُن اساتذہ کی جیت ہے جنہوں نے کردار سازی کو تعلیم سے مقدم جانا۔ یہ ان سپاہیوں کا سر فخر سے بلند کرنے کا لمحہ ہے جن کے دل میں وطن، آنکھوں میں وفا اور ہاتھوں میں عزم ہوتا ہے۔

یہ ایک نئی نسل کے لیے مثال بھی ہے۔فیلڈ مارشل عاصم منیر آج ایک مثال ہیں — کہ محنت، اخلاص اور ایمان کے ساتھ سفر شروع کرو، تو اللہ خود راستے کھول دیتا ہے۔
وہ نسل جو سوچتی ہے کہ کامیابی کے لیے سفارش،

Comments (0)
Add Comment