ہمارے ہاں جب کوئی شادی یا غمی کا موقعہ ہوتا تو سب سے پہلے اباجی کہتے کہ چاند خان کو اطلاع دو ۔چاند خان نے بھی ہمیشہ تقریب کی روح رواں بن جاتا تھا ۔بوڑھے چاند خان کے سفید بالوں کے باوجود ہمارا رشتہ بھائی کا بنتا تھا ۔اس لیےکے بھائی چاند خان اباجی کو چچا کہتے تھے ۔وہ گھر میں خواتین بچوں اور نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول اور ہر دلعزیز سمجھے جاتے تھے ۔جب بھی وہ کسی تقریب میں پہنچ جاتے تو گھر کے ہر کام میں ان سے مشورہ لیا جاتا اور وہ بھی ہر معاملے میں مداخلت کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے ۔وہ بزرگوں میں عمرکے لحاظ سے بزرگ بن جاتے اور نوجوانوں میں رشتے کے لحاظ سے دوست بن جاتے ۔مجھے نہیں یاد کہ انہوں نے کسی تقریب شرکت نہ کی ہو بلکہ وہ ہر تقریب کی جان ہوتے تھے ۔ہمیشہ وقت سے پہلے پہنچتے اور سب سے بعد میں واپس جاتے ۔خواتین بچوں اور بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرکے ان کے دل جیت لیتے اس لیے سب سے زیادہ خاطر مدارت بھی ان کی ہی کی جاتی تھی ۔میں نے ان سے زیادہ دلچسپ اور باتونی انسان کبھی نہیں دیکھا لیکن ان کے ایک ایک لفظ سے محبت اور خلوص ٹپکتا تھا ۔ان کی ہرادا بے لوث اور پر خلوص ہوتی ۔وہ ہمیشہ مثبت اور اچھی بات کرتے تھے ۔ان کی مقبولیت کا ایک راز یہ تھا کہ وہ ہر شخص کے مزاج کے مطابق بات کرکے خوش کردیتے تھے ۔ان کی محبت اور اپنائیت کی وجہ سے زندگی بھر ہمیں کبھی خیال ہی نہ آیا کہ اباجی سے پوچھیں کہ بھائی چاند خان کون ہیں ؟ ان سے ہمارا رشتہ اتنا قریبی کیسے ہے ؟ پھر ایک روز محبتوں کے سفیر بھائی چاند خان اللہ کو پیارۓ ہو گئے ۔اباجی بھی بیمار اور چلنے پھرنے سے قاصر تھے ۔لیکن چاند خان کو اکثر یاد کرتے تھے ۔میں نے ایک دن پوچھا اباجی بھائی چاند خان سے ہماری کیا رشتہ داری تھی ؟ انہوں نے عجیب سی بات کی کہ چاند خان سے بہت بڑی رشتے داری تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی رشتہ داری بھی نہ تھی ۔میری حیرانگی بڑھ گئی ۔میں ان کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ کہنے لگے ۔جاوید ! رشتے خون کے نہیں نیتوں کے محتاج ہوتے ہیں ۔قربت رشتوں سے نہیں احساس سے ہوتی ہے ۔ورنہ ہماری رگوں میں بہنے والا سگا خون بھی کبھی کبھی زہر بن جاتا ہے ۔ایسے رشتے دستک کے محتاج نہیں ہوتے یہ تو خوشبو کی طرح بند دروازں سے بھی گزر کر پھیل جاتے ہیں ۔چاند خان اور ان کے خاندان سے ہماری کوئی خونی یا قرابتی رشتہ داری کبھی نہ تھی ۔ہمارے گاوں اکبر پور باروٹہ میں ان کا گھرانہ اس دور میں ہمارا ہمسایہ تھا جب ہمسایہ ماں جایا ہوتا تھا ۔رشتے نبھانے سے قائم ہوتے ہیں اور رشتہ وہی ہوتا ہے جو دکھ تکلیف ،خوشی غمی میں ساتھ دۓ ۔ہمارے پڑدادا پیر خان جب یتیمی کی حالت میں گاوں پہنچے تو ان کا پہلا ہمسایہ جو ان کا معاون ،مددگار اور بازو بنا وہ چاند خان کا دادا شہادت خان تھا ۔ گو ہمسائیگی کایہ مضبوط رشتہ کبھی باہمی رشتہ داری میں نہ بدلا مگر محبتوں کا یہ سفر کئی پشتوں سے ویسے ہی چلا آرہا ہے ۔وہ لوگ رشتے سنبھالنا جانتے تھے اور رشتوں کی قیمت سے بھی خوب واقف تھے ۔آج زندگی تیز تر لیکن روحانی خوشی ،جذباتی مسرتیں اور وابستگیاں بہت کم اور رشتوں کی نزدیکیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں ۔ٹیکنالوجی زندہ اور معاشرتی اور اخلاقی قدریں مردہ ہوتی جارہی ہیں ۔نئی نسل کی سوچ اور مشینوں کا استعمال انسانوں اور انکے رشتوں میں دوریاں پیدا کر رہا ہے ۔
ذرا سوچیں کہ آج سگے اور خون کے رشتوں کے کیا حالات ہیں ؟ آج اکثر دوستوں اور رشتے داروں سے مجھے قریبی رشتوں اور تعلقات میں بڑھتی دوریوں کا نوحہ سننے کو ملتا ہے ۔ہر شخص خود کو ٹھیک کرنے کی بجاۓ دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے ۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے والدین کو اپنے بچوں کے سامنے بےبس کر دیا ہے ۔نئی نسل پرانی روایات سے باغی ہوتی جارہی ہے ۔دور بدل گیا ہے پہلے والدین کی بات کو اہمیت حاصل ہوتی تھی آج بچے اپنی مرضی مسلط کر رہے ہیں ۔میرے ایک عزیز نے تو اپنی بچی کی وجہ سے اپنا مذہبی فرقہ تک بدل لیا تھا اور پورے خاندان سے تعلق توڑ دیا تھا ۔ بچوں کے سامنے والدین کی یہ بےبسی قابل توجہ ہے ۔کیونکہ محبت اور رشتوں کے تقاضے ہر ہر فرد سے مختلف ہوتے ہیں ۔ بچوں کی خواہشات اور خوشی کے سامنے والدین کی محبت ہتھیار ڈال دیتی ہے ۔ہمارے اباجی اکبر آللہ آبادی کا یہ شعر اکثر سنایا کرتے تھے ۔
ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
ذرا تصور کریں کبھی ایک چھت کے نیچے بیٹھے لوگ دل کی دھڑکن سے واقف ہوتے تھے، اب ایک ہی گھر میں رہ کر بھی ایک دوسرے کے احوال سے بےخبر ہیں۔ رشتوں کی وہ مٹھاس، جو ماں کے لمس، باپ کے سائے، بہن کے ہنسنے اور بھائی کے شفیق رویے میں گھلی ہوتی تھی، اب کسی گم شدہ روایت کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ کبھی خطوں اور عید کارڈ کے ذریعے محبت کا پیغام آتا تھا، آج واٹس ایپ کے میسجز میں بھی وہ گرمجوشی نہیں ہے ۔ قریبی رشتے، جو ایک دوسرے کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے تھے، اب باہمی فاصلے اور خاموشی کی دیواروں میں قید ہوتے جا رہے ہیں۔ہم ایک دوسرے سے بات کرنا تو جانتے ہیں مگر سننا اور سمجھنا وہہی چاہتے ہیں جو ہم پسند کرتے ہیں ۔دل کی باتوں کو دبایا اور جذبات کا گلا گھونٹا جاتا ہے ۔اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رشتہ صرف نام کا رہ جاتا ہے روح کا ناتا ٹوٹ جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے ہمیں جسمانی طور پر قریب ضرور کر دیا، مگر دلوں کو دور کر دیا۔ ماں باپ بچوں کے ساتھ ہوں مگر ان کی انگلیاں اسکرین پر ہوں۔ بہن بھائی ایک ہی کمرے میں ہوں مگر الگ الگ دنیاؤں میں کھوئے ہوں۔ شوہر بیوی ساتھ ہوں، مگر ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکے ہوئے زمانے گزر چکے ہوں۔ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ ہم جی تو رہے ہیں لیکن انا کے خول میں قید ہوچکے ہیں ۔معافی مانگنے کو کمزوری سمجھا جانے لگا ہے ۔وقت دینا بوجھ لگنے لگا ہے ۔محبت دکھانا شرمندگی کا باعث بننے لگا ہے شاید ہم محسوس کرنا ،بانٹنا اور جینا بھولتے جارہے ہیں۔ کبھی کبھی ایک رشتہ بچانے کے لیے صرف ایک لفظ، ایک قدم، ایک مسکراہٹ کافی ہوتی ہے۔ مگر جب وہ بھی نہ دی جائے تو رشتے یخ بستہ ہو کر جم جاتے ہیں۔ وہ ماں جو ساری عمر بچوں کے لیے قربانی دیتی رہی، اب اپنی زندگی کے آخری ایام تنہائی کے کمرے میں گزارتی ہے۔ وہ باپ جو گرمیوں میں رزق کے لیے دوڑتا تھا اور سردیوں کی راتوں میں چھتوں پر کمبل اوڑھاتا تھا، آج مالی بوجھ بن چکا ہے۔ وہ بہن جو بھائی کے لیے سہیلیوں سے جھگڑ جاتی تھی، شادی کے بعد صرف رسموں تک محدود رہ گئی ہے۔ہمیں اس تنزلی کو روکنا ہو گا ۔رشتے رب کی نعمت ہوتے ہیں اور نعمتوں کا شکر ادا نہ کریں تو یہ چھن جاتے ہیں ۔آئیے اپنے قریب ترین رشتوں کے درمیان دیواریں گرانے کا عزم کریں بات کریں ،سنیں ،گلے لگائیں ،وقت دیں ،جھکنا اور معافی مانگنا سیکھیں بھولنا اور درگزر کرنا سیکھیں کیونکہ جو رشتے آج خاموش ہوچکےہیں وہ کل شاید تصویروں میں باقی رہیں ۔آپ کے بچے تو نقال ہوتے ہیں جو دیکھتے ہیں وہی کرتے ہیں ان کے ذہنوں میں اپنی سوچ ڈالیں ۔اپنے بچوں کو کم عمری میں ہی تعریف ،تعزیت ،تیمارداری ،احساس ،برداشت ،انکساری ،فیاضی ،تواضع ،روداری ،دینداری ،احترام اور خود اعتمادی لازمی سکھائیں ۔ایسی خوبیاں ہی انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتی ہیں۔ورنہ کھانا تو باقی مخلووقات بھی اپنی اولاد کو کما کر کھلاتی ہی ہے ۔میں نے اپنی آنکھوں سے بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی کے پاوں پکڑ کر معافی مانگتے دیکھا ہے صرف اور صرف رشتے بچانے کے لیے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ معافی مانگنا یا اپنی غلطی کا اعتراف کرنا دراصل بڑا پن ہوتا ہے ۔میں نے بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی کو اس کی اولاد کے سامنے غلط سوچ اور بات پر تھپڑ مارتے دیکھا ہے ۔مجھے یاد ہے کہ میری بڑی بہن نے میری کسی غلط بات مجھے خود پورے خاندان کے سامنے تھپڑ مار کر چپ کرا دیا تھا ۔آج کی اولاد نے تو ماں باپ کے رشتے کو ایسا بت بنادیا ہے جس کے بارۓ میں غلطی کا سوچنا بھی جرم ہوتا ہے ۔کاش نئی نسل جان سکے کہ تمہارا باپ کسی کا بڑا یا چھوٹا بھائی بھی ہے ۔اور کل کو تم بہن بھائیوں نے بھی زندگی گزارنی ہے ۔
عنقریب ایسا وقت آرہا ہے کہ لوگ خاموش دیواروں میں قید فارغ بیٹھے وقت ضائع کر لیں گے مگر کسی سے بات نہیں کریں گے ،کسی سے دکھ درد نہیں بانٹیں گے ،اور نہ ہی کسی کے دکھ سنیں گے ۔اس سے پہلے کہ وہ وقت آپہنچے ان کو سنائیں جو آپ کو سننا چاہتے ہوں ان کی سنیں جو آپ کے پیارے ہوں ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹیں کہ یہ ہی انسانیت ہے ورنہ ہم سب کو انسانوں کو موذی بیماری نہیں بلکہ تنہائی مار ڈالے گی ۔اپنے ارد گرد لوگوں اور اولاد کو خاموش دیواریں نہ چننے دیں کیونکہ یہ جب اونچی ہو جاتی ہیں تو نہ تو تم لوگوں کو دکھائی دو گے اور نہ ہے تمہیں دنیا دکھائی دۓ گی ۔کہتے ہیں کہ تتلی کا زندہ رہنا کافی نہیں اس کے پاس دھوپ ،آزادی اور ایک چھوٹا سا پھول بھی ضروری ہونا چاہیے کیونکہ اس کی زندگی کا یہی تعلق اور رشتہ ہے جو اسے زندہ رکھتا ہے ۔