بے ہُنر تعلیم، بے روزگار معاشرہ

تحریر: خالد غورغشتی

کتابیں پڑھنا اور جمع کرنا اچھی خصلت ہے، بلاشبہ بشری وصف کو سنوارنے میں ان کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ کتابیں پڑھنے سے انسان کے قلوب و اذہان مُنّور ہوتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں صرف کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، ان کا مقصد متعین نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے بچے تیس تیس سال پڑھ لکھ کر ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہو کر سماج پر بوجھ بن جاتے ہیں۔

اس کی سادہ سی تمثیل کو یوں سمجھیں کہ آج کل ہمارے ملک میں عصری و دینی اداروں کی کمی نہیں ہے۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل افراد ایک سے بڑھ کر ایک آپ کو فلسفہ جھاڑتے مل جائیں گے۔

آپ بچے کو داخل کروانے نکلیں تو سر چکرا کر رہ جائے گا۔ آپ گہری سوچ میں مبتلا ہو جائیں گے کہ بچے کو دینی ادارے میں داخل کروائیں یا عصری میں۔ اگر بچے کو دینی ادارے میں داخل کیا تو یہ سوچ پیچھا نہیں چھوڑے گی کہ بچے کی عصری تعلیم کا کیا بنے گا؟ بچہ دین پڑھ لکھ گیا تو آخر میں روزگار کا کیا ہوگا؟ اگر عصری ادارے میں داخل کیا تو انگلش میڈیم اور اردو میڈیم کا مسئلہ درپیش رہے گا۔ اسی سوچ نے ہمیں بہت پیچھے دھکیل دیا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دینی و عصری تعلیم کے مشترکہ ادارے کھل گئے جو معاشرے میں اصلاح لانے کی بجائے “آدھا تیتر آدھا بٹیر” بنا کر مزید اُلجھاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس سارے نظام میں خرابی کی بڑی وجہ رٹے کا طریقہ کار ہے، جو بچوں کی صلاحیتوں کو اندر ہی اندر سے کھائے جا رہا ہے۔ کئی سال پڑھ لکھ کر بھی بچے بنیادی قواعد نہ سیکھنے کے باعث نماز کی درست ادائیگی، قرآن کو صحیح مخارج سے پڑھنا، انگریزی، اردو کی گرامر اور ریاضی کے اصولوں سے نابلد رہتے ہیں۔

ڈگریوں اور نمبروں کی دوڑ نے معیارِ تعلیم کو مزید گرا دیا ہے۔ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کا رونا روتے رہے، جب کہ دنیا انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئی؟

فہم و ادراک رکھنے والے قارئین بہ خوبی جانتے ہوں گے کہ پچاس پچاس برس کے اکثر بزرگوں کو درست نماز، چھ کلمے اور صحیح اردو تک پڑھنی نہیں آتی۔ پھر ان کی نسلوں کا کیا حال ہوگا؟ بات یہیں تک محدود ہوتی تو سمجھ میں آنے والی تھی۔ حیرت اس پر ہے کہ ہماری اکثریت بے ہُنر ہونے کے باعث ساری عمر روزگار کی تلاش میں دربدر گھومتی ہے اور انھیں مستقل کوئی کام نہیں ملتا۔ حالیہ دنوں میں امریکہ، انگلینڈ، کوریا، سعودی عرب، اور دیگر ممالک سے پاکستانیوں کو بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا، جو انتہائی افسوس ناک ہے۔

اپنے دیس کو کون چھوڑتا ہے؟ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگ مجبوراً دیارِ غیر کا رُخ کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ نوجوانوں میں دینی حمیت کا فقدان اور مذہبی رہنماؤں کے بارے میں سوشل میڈیا پر میمز بنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ نسلِ نو کا غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونا لمحہِ فکریہ ہے۔

ضروری نہیں کہ راتوں رات انقلاب آئے مگر یہ ضروری ہے کہ انسانی دماغ کو ہیک ہونے سے بچاتے ہوئے اس کا درست استعمال سیکھا جائے۔ اللہ نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ آیا ہو۔ آئیں شخصیت پرستی کے چنگل سے آزاد ہو کر ایک مضبوط منصوبہ بنائیں۔ صبح دیر سے اُٹھنے کی بجائے فجر کی نماز سے دن کا آغاز کریں اور اپنے کاموں میں محنت سے جُٹ جائیں۔ کیوں کہ کام ہی سے نام روشن ہوتا ہے، اور کام ہی زمانے میں پہچان دلاتا ہے۔ ہمت، جہد اور مسلسل محنت سے ہی معاشرے میں تبدیلی ممکن ہے۔

Comments (0)
Add Comment