سوشل میڈیا کا دور ہے، آج کل پیار کی بات کریں تو مطلب کوئی اور سمجھا جاتا ہے۔ خیر ہمیں کسی سے کیا سروکار؟ دنیا تو ویسے بھی مطلب کی ہے یار، جب مطلب ہو تو لوگ پیار بھی کرتے ہیں اور جب نکل جائے تو دیکھتے بھی نہیں۔
آج ہمارے گھروں میں الفت نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے بھائی بھائی کا دشمن ہے۔ وہ دور اور ہوتے تھے جب ہزار اختلاف کے باوجود مل جل کر رہا کرتے تھے۔ اگر کوئی راہ چلتے بھی مل جایا کرتا تو اس کو اس وقت تک نہ چھوڑتے، جب تک چائے پانی نہ کروا دیتے۔ سب شرم شریک ہوتے تھے اور گھر میں بڑوں کا راج ہوتا تھا، جو بات وہ کہہ دیتے ان کا حکم گھر میں مثلِ جرّگہ تصور ہوتا، جو پورے گھر پر نافذ ہو جاتا۔
محبتوں کا اس قدر حسین دور تھا کہ سب سہلیاں ایک ہی گھر میں مٹی کے اُوپر طرح طرح کے کھیل کھیلاتی اور جب تھک ہار کر پسینے سے شرابور بیٹھ جاتیں تو اسی گھر میں ان کے لیے سادہ سے کھانے کا دستر خوان بچ جاتا ہے جہاں وہ روکھی سوکھی کھا کر خوشی خوشی گھروں کو لوٹ جاتیں۔
بہن بھائی کی الفت قابل تعریف ہوتی، شادی کے موقع پر دُلّہن کو رُخصت کرتے وقت صف ماتم بچھ جاتا۔ سب دھاڑیں مار مار کر اس قدر روتے کہ غم سے نڈھال بلکہ بسا اوقات بے ہوش بھی ہو جاتے۔
رنگین میڈیا کا دور نہ تھا مگر رشتے شوخ تھے، ہر رشتے کا تقدس کمال تھا۔ لوگ وقت پر سوتے اور صبح جلدی اُٹھتے، سب کو نماز کے وقت دادا جان سختی سے جگاتے۔ سُنا ہے جس گھر میں کوئی نماز نہ پڑھتا، مائیں اُنّھیں غُصّے سے ناشتہ تک نہ دیتیں۔
اکثر گھر کچے اور رشتے پکے تھے۔ دور دور تک نا اتفاقی کی فضا نہ تھی۔ بزرگ بتاتے ہیں؛ جب مکان بنتے تو لوگ مٹی ڈالنے کے لیے اردگرد سے اکھٹے ہو کر ہاتھ بٹھاتے۔ دن بھر خُوب ہلّہ گلّہ ہوتا اور جو بھی دال ساگ میسر ہوتا سب منہ لٹکائے بغیر بخوشی کھا لیتے۔ دُور دُور تک نخروں کا تصور نہ تھا۔
اگر کوئی کسی سے رُوٹھ جاتا تو اسے منانے کے لیے سب محلے دار اور رشتے دار یک جان ہو جاتے۔ تین دن سے زیادہ رشتہ توڑنا سب معیوب سمجھتے۔ ملتے وقت اکثر لوگ بغل گیر ہوجاتے۔ سیاست اور مذہب پر تکرار کے باوجود سب کی ایک صلاح ایک ہی جماعت ہوتی تھی؛ جس کا نام تھا محبت۔ اس جماعت میں مُسلم تو رہے مسلم؛ غیر مسلم بھی محفوظ تھے۔ دور دور تک شیعہ سنی فساد کا نام و نشان تک نہ تھا۔ پورا گاؤں ایک جنازہ گاہ، ایک جامع مسجد پر متفق تھا۔ جگہ جگہ ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجد کا کوئی تصور نہ تھا، ملا کی دوڑ مسجد تک نہ تھی۔ وہ پورے علاقے کا نمائندہ ہوتا۔ جس کی ہر بات کو سُنا جاتا اور عمل کیا جاتا تھا۔ وہ مدرسے کا نظام چندے اور بندے سے نہیں، بلکہ وظیفے سے چلاتا، وہ بچوں کو کھانے کے لیے اہل محلہ کے گھر بھیج دیتا جو اُنھیں وافر مقدار میں تازہ کھانا دیتے تھے۔ اگر کوئی ملا صاحب کو چندے کی آفر کرتا تو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا جاتا کہ اس کے گھر دو وقت کا کھانا موجود ہے؛ کسی غریب، بیوہ، یتیم یا بے سہارا کو دے آؤ۔
برسوں کی نفرتوں کو بُھول کر چند لمحوں میں لوگ شیر و شکر ہو جاتے تھے۔ سرمایہ کثیر نہ ہونے کے باوجود ملک ترقی کی راہوں پر تیزی سے گامزن تھا۔ قرضوں کا تناسب کم تھا۔ بھکاریوں کا دور دور تک تصور نہ تھا، یہ بھی سُنّا ہے کہ لوگ مجبور بھی بہت ہوتے تھے مگر غیور بھی بہت تھے۔ ان کی بہادری اور جرات مندی کی مثال کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ پانچ دس من کا پتھر ایک شخص با آسانی اٹھا لیا کرتا۔
دلوں میں کدورت اور تکبر نہ ہونے کے باعث معاشرہ تنزلی کا شکار نہ تھا، یہ جو ہم ہر وقت مہنگائی، قحط سالی اور حکومتی نا اہلی کا رونا روتے ہیں نا، آئیں آج سب اپنی اپنی اداؤں غور کریں۔ ہم نے آپس میں جو نفرتوں کے پہاڑ کھڑے کر رکھے ہیں، کیا یہ سب سے زیادہ ہماری تنزلی میں آڑے تو نہیں آ رہے ہیں۔ آج ہم فلاحی اداروں، دینی اداروں کو دینے کی بجائے اپنے اپنے رشتے داروں کو نوازنا شروع کر دیں، کسی کو کاروبار، کسی کو روزگار تو کسی کو با ہنر بنا دیں۔ کل ہمارا ملک ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہوگا۔ “بات ہے، سچ مگر رسوائی کی”