پتنگ بازی کا شغل صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مختلف ممالک میں پایا جاتا ہے لیکن ہر جگہ اور ہر ملک میں اس کے انداز مختلف ہوتے ہیں ۔پاکستان میں پتنگ بازی کا ا نداز کسی کھیل یا تفریح سے زیادہ مقابلے بازی اور فضول خرچی کی علامت بنتا چلا گیا اور بات رات بھر ہوائی فائرنگ تک جا پہنچی ۔ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ضد میں پتنگ کی ڈور کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ دھاتی تار کے استعما ل نے اس کھیل کو موت کے کھیل میں بدل دیا۔پتنگ بازی کی معصوم خوشیاں اذیت اور تکلیف کا باعث بن گئیں ۔کہتے ہیں کہ پتنگ اڑانے کا پہلا حوا لہ قبل مسیح میں ملتا ہے ۔جب چین میں سپہ سالار ہان سینگ نے دشمن کے ایک شہر کا محاصرہ کیا اور وہ براہ راست مقابلے کی بجاۓ ایک سرنگ کھود کر شہر مییں داخل ہونا چاہتا تھا لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ سرنگ کتنی لمبی کھودی جاۓ تو شہر تک پہنچ پائیں گے ؟ اس لیے پڑاو ٔ کے مقام سے شہر کی فیصل کے اندر تک کا فاصلہ ناپنے کا فیصلہ کیا ۔اس نے دیکھا کہ ہوا اس سمت کی چل رہی ہے جہاں وہ سرنگ کے ذریعے داخل ہونا چاہتا ہے ۔وہ یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ اس جانب ہوا کے ساتھ کاغذ اڑتے جاتے ہیں ۔یہ دیکھ کر اس نے ایک کاغذ لیا اور اس میں درخت کے چند تنکے باندھ دیے تاکہ اسے ہوا کا دباؤ حاصل ہوسکے اور جو اسے اڑنے میں مدد گار بھی ثابت ہو اور پر ایک لمبے دھاگے کی مدد سے اسے اڑایا گیا ۔جب یہ کاغذ مطلوبہ مقام تک پہنچ گیا تو اسے ناپ کر واپس کھینچ لیا گیا اور ڈور کو ناپ کر فاصلہ معلوم کر لیا گیا یہ دنیا کی پہلی پتنگ تی جو ایک جنگی مقصد کے لیے اڑائی گئی تھی ۔یوں قدیم چین میں پتنگ سازی فوجی استعمال کے لیے کی جانے لگی اور پھر اسے پیغام رسانی اور جاسوسی کے لیے بھی استعمال ہوئی ۔رفتہ رفتہ پتنگ کی ساخت اور طریقہ کار میں بہتری آنے لگی اور یہ بہترین تفریح اور شغل کی باعث چین میں ایک صنعت کی صورت اختیار کرگئی ۔پتنگ سازی میں چین آج بھی پوری دنیا سے منفرد ہے ۔ پاکستان میں بھی پتنگ بازی کا شغل پسندیدہ سمجھا جاتا تھا ۔خاص طور پر بسنت کے موقع پر اسے ہماری ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔
پتنگ کا اپنا ہی ایک رومانس ہوا کرتا تھا ٓ۔اسمان پر اڑتی رنگ برنگ پتنگیں بڑی خوبصورت اور بھلی ضرور لگتی ہیں ۔بچپن میں ہمارے دور کے ہر بچے کو پتنگ بازی کا شوق ضرور چراتا تھا ۔بسنت کے دوران اپنے گھروں کی چھتوں پر پتنگ بازی کے مقابلے نوجوانوں ،بوڑھوں اور بچوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لیتے تھے ۔بڑی بڑی شرطیں اور مقابلے ہوا کرتے تھے ۔ بسنت کا تہوار پتنگ کے بغیر نامکمل ہوا کرتا تھا ۔البتہ کبھی کبھار کٹی پتنگ لوٹتے ہوۓ ایک آدھا بچہ زخمی ضرور ہو جاتا تھا یا پھر چھت سے گر کر ہاتھ پاوں تڑوا لیتا تھا ۔ پتنگ بازی روائتی انداز میں محفوظ ماحول اور محفوظ ڈور کے ساتھ ہی اچھی لگتی تھی اور کبھی تیز دھار ڈور سےکسی کا گلا نہیں کٹتا تھا کیونکہ دھاتی اور تیز دھار ڈور کے استعمال کو شجر ممنوع سمجھا جاتا تھا ۔یہ پتنگ بازی ایک خوبصورت مشغلہ اور تفریح امن و خوشی کی علامت سمجھی جاتی تھی ۔پھر رفتہ رفتہ یہ شوق تہوار اور تفریح سے بڑھ کر آپس کے مقابلوں اور دشمنیوں میں بد لنے لگا اور ایک دوسرے کی ضد میں تیز دھار اور دھاتی ڈور کا استعمال ممانعت کے باوجود استعمال ہونے لگا ۔ اس ڈور کے پھرنے سے لوگوں کے گلے کٹنے لگے اور جانیں ضائع ہونے لگیں ۔گو پتنگ بازی ایک تفریح اور کھیل ضرور ہے مگر جب یہ انسانی جانوں کا قاتل بن جاۓ تو لمحہ فکریہ بن جاتا ہے ۔ہر سال بسنت اور دیگر مواقع پرپتنگ بازی کے دوران بےشما ر افسوسناک واقعات اور حادثات رونما ہونے لگے اور تیز دھار ڈور اور دھاتی ڈور کی وجہ سے لوگوں کی گردنیں کٹنے کے واقعات عام ہونے لگے تو معلوم ہوا کہ پتنگ بازی صرف پتنگ بازوں کے لیے ہی نہیں بلکہ عام معصوم راہ گیروں کے لیے بھی خطرہ جان ثابت ہو رہی ہے پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ ہوائی فائرنگ کی خطرناک رسم نے تو شہروں میں خوف وہراس پیدا کر دیا تو اس پر پابندی کا مطالبہ زور پکڑ گیا اور حکومتی پابندیاں لگانی پڑیں مگر دھاتی اور کیمیکل لگی ڈور کے استعمال پر پابندی کے باوجود یہ خفیہ طریقوں سے نہ صرف فروخت بلکہ استعمال کی جانے لگی اور ہر سال ناصرف کئی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ بجلی کے تاروں میں پتنگ اور ڈور کے پھنسنے سے شارٹ سرکٹ او ر آتشزدگی جیسے واقعات بھی پیش آۓ اور جانی ومالی نقصان کا باعث بنے ۔ہر سال حکومتی پابندیوں کو کسی نہ کسی طور ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے ۔جبکہ تفریح کی کوئی بھی شکل انسانی جان سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتی ۔تفریخ اور تہوار کی آڑ میں ہونے وا لا موت کا یہ کھیل ناجانے کتنے ہی گھروں میں صف ماتم بچھا دیتا ہے ۔خدارا اپنے بچوں کو پتنگ بازی سے روکیں اپنے ارد گرد لوگوں کو پتنگ بازی کی قانونی پابندی سے آگاہ کریں کہ پتنگ بازی کی آر میں موت کا یہ کھیل ہرگز نہ کھیلیں ۔اس پتنگ بازی اور دھاتی ڈور نے ناجانے کتنے ہی گھر اجاڑ دیے ہیں ؟ کتنی مائیں اپنے بیٹوں سے سہاگنیں اپنے سہاگ اور گھر کے کفیل سے اور بچے اپنے باپ کے ساۓ سے محروم ہوچکے ہیں ؟ سوچیں تھوڑا نہیں بہت زیادہ سوچیں اور حکومتی اپیلوں پر توجہ دیں اس میں آپ کی ہی بھلائی ہے ۔
پتنگ بازی پر پابندی عائد کرنے کے لیے اور لوگوں کو اس خطرنا ک کھیل سے باز رکھنے کے لیے عام طور پر یہ اقدامات کرنے ضروری ہوتے ہیں ۔پتنگ بازی کے خلاف قوانیں متعارف کراۓ جاتے ہیں جس کے تحت پتنگ بازی دھاتی ڈور اور کیمیکل ڈور کے استعمال پر پابندی لگائی جاتی ہے اور خلاف ورزی پر جرمانے اور سزائیں دی جاتی ہیں ۔ڈور اور پتنگ بنانے والوں کے کارخانوں پر چھاپے مار کر پتنگیں اور ممنوعہ ڈور ضبط کر لی جاتی ہیں ۔ایف آئی آر درج کرکے گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے ۔یاد رہے کہ پنجاب امتناع پتنگ آرڈیننس کے تحت پتنگ بازی کے ساتھ ساتھ ڈور اور تندی کی تیاری ،استعمال اور ٹرانسپورٹیشن ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جاچکا ہے ۔ا ن سب قوانین کے تحت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکام شوقین حضرات کو اس غیر قانونی اور غیر انسانی شوق سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ جو مشغلہ انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن جاۓ تو اسے سختی سے روکنا ہی سب سے بہتر ہوتا ہے ۔
اس سلسلے میں صرف حکومتی اقدامات ہی کافی نہیں ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر ملک بھر میں آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے جو لوگوں کو پتنگ بازی کے متوقع خطرات اور قانونی نتائج سے خبردار کرسکے اور یہ شعور اجاگر ہوسکے کہ یہ ہماری اور ہمارے بچوں کی جان لے سکتی ہے ۔اس سلسلے میں ہماری مساجد ،مدرسہ اور تمام تعلیمی اداروں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔الیکٹرک میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کو اس آگاہی کا حصہ بننے کی ضروت ہے جبکہ والدین اور اساتذہ کو بچوں کو پتنگ بازی کے متوقع نقصانات سے آگاہی کا فریضہ ادا کرنا چاہیے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہےکہ نوجوانوں کو متبادل اور مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کریں ۔کھیلوں اور ثقافتی میلوں کے ذریعے گروانڈ کی رونقیں بحال کی جائیں ۔خدارا جان لیوا پتنگ بازی سے خود بھی بچیں اور اپنے پیاروں کو بھی بچائیں ۔