آقا رحمت ء کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے۔
” مسلمان ( باہم ) ایک انسان کی طرح ہیں ، اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر سر میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے ۔ ”
[صحیح مسلم : 6589]
اس وقت ایک طرف فلسطین میں شہیدوں کے قبرستان بسائے جا رہے ہیں۔ تو دوسری طرف ایک طویل عرصے سے کشمیر میں مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ جس سے مسلم امہ میں شدید بے چینی و بے قراری کی کیفیت ہے۔ اور اس پہ ستم یہ کہ امن کی نام نہاد عالمی تنظمیں محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اور اگر مظالم کے حد سے بڑھنے پہ کبھی کوئی دکھاوے کے لئے قرارداد پیش بھی کی جاتی ہے۔ تو کہیں بھی عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا ۔ جو کہ مزید تکلیف دہ ہے۔
ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی دراصل کشمیری مسلمانوں سے اظہارِ ہمدردی و اتحاد کے طور پہ منایا جاتا ہے۔ یومِ یکجہتی کشمیر منانے کی ابتداء 1975ء میں ہوئی۔ جب بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور مقبوضہ کشمیر کے سیاسی رہنما شیخ عبداللہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ اندرا۔ شیخ تاریخی معاہدے کا بظاہر علاقائی شکایات کو دور کرنا اور سیاسی معمولات کی بحالی تھا۔ مگر اس معاہدے کے عوض شیخ عبداللہ کو 1951ء کے بعد مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں دوبارہ اقتدار حاصل ہو گیا۔ اور کشمیری عوام کی آزادی و خود ارادیت کی آواز دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
کشمیر کے حریت پسند رہنما اور مرد ء آہن سید علی گیلانی نے اس دورِ پرُ آشوب سے تا دم مرگ اسمبلی و سفارتی اور بین الاقوامی سطح پہ عوامی خودارادیت کی خواہش اور بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تو مقبوضہ وادی کی آزادی کی جدوجہد میں سیاسی رہنماؤں کے علاؤہ عوامی شخصیات بھی شامل ہوئیں۔ ان متوالوں میں امان اللہ خان اور انقلابی رہنما محمد مقبول بٹ سر ء فہرست نظر آتے ہیں۔
اس صورتحال میں پاکستان میں جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد اور آزاد کشمیر کے اس وقت کے صدر و بانی صدر آزاد حکومت سردار محمد ابراہیم خان نے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو کشمیری عوام کیساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کے لئیے دن منانے کی تجویز پیش کی۔ جسے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے منظور کرتے ہوئے پہلی بار 28 فروری 1975ء کو کشمیری عوام کیساتھ اظہارِیکجہتی کا دن منانے کا اعلان کیا۔ پاکستان عوام نے بھرپور انداز میں کشمیر پہ بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کشمیری عوام کی آوازِ خود ارادیت کی تائید کی۔
تاہم مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے مظالم اور کشمیریوں کے استحصال پہ 1990ء جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد نے اس وقت کے وزیراعلی پنجاب نواز شریف اور وزیراعظم پاکستان محترمہ بےنظیر بھٹو صاحبہ سے ہمیشہ عوام سے اظہار ء یکجہتی کے لئیے باقائدہ ایک دن مخصوص کرنے کے لئیے مشاورت کی ۔ اس وقت کے سیاسی حالات کے پیشِ نظر وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس کی فوری تائید کی۔ اور 5 فروری کو باقاعدہ یومِ یکجہتیِ کشمیر کے طور پہ منانے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح 5 فروری 1990ء سے باقاعدہ طور کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کا دن منانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
5 فروری 2004ء میں یومِ یکجہتیِ کشمیر کو سرکاری طور پہ منانے کا آغاز ہوا۔ جب اسوقت کے وزیر اعظم پاکستان میر ظفر اللہ خان جمالی نے مظفر آباد میں پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور جموں و کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ اور تب سے اب تک یہ روایت ہر سال پوری کی جاتی ہے۔
کشمیریوں کی جدو جہد ء آزادی آج بھی جاری ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مظالم و استحصال کا بازار اج بھی گرم ہے۔ اب تک مقبوضہ وادی میں ڈھائی لاکھ سے زائد مظلوم کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ اور مزید نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی تنظموں کی جانب سے پیش کردہ قراردوں سے بھی بھارت کے لئیے جیسے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ان حالات میں یومِ یکجہتیِ کشمیر جہاں کشمیری عوام سے اظہار اتحاد ہے۔ وہیں یہ عالمی تنظموں اور لیڈران کی توجہ مبذول کروانے کا بھی ذریعہ ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا۔ 5 فروری یومِ یکجہتیِ کشمیر اس عہد و اظہار کا دن ہے۔ کہ پاکستانیوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا نہ تنہا چھوڑیں گے۔ ہم ان کی آزادی و خود ارادیت کی جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں۔ اور آزاد و خود مختار ریاست جموں و کشمیرکے قیام تک ان کا ساتھ دیں گے۔
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن!!