بیورو کریسی کا بچہ کلچر۔۔۔

ملک سلمان maliksalman2008@gmail.com

ایک سنئیر آفیسر کی کال آئی کہ اگر آپ نے ورلڈ بنک فنڈنگ والے کالم میں فلاں افسر کی طرف اشارہ کیا ہے تو اسکو چیف منسٹر بھی نہیں بدل سکتی کیونکہ میں سیکرٹری ہوکر اس گریڈ 18والے کے سامنے بے بس تھا کیونکہ وہ فلاں بڑے افسر کا بچہ ہے۔ میں نے کہا کہ سر میں نے ایگزیکٹ فگر لکھنے کی بجائے مثال کے طور پر اسی لیے لکھا تھا کہ اگلے کالم میں ورلڈ بینک سمیت بیرونی فنڈنگ والی تمام سیٹوں اور ان سیٹوں پر تعینات افسران کے بارے”اوورآل“ لکھوں گا, کسی ایک کے بارے لکھنا غیر اخلاقی تھا کیونکہ ان پراجیکٹس کے مین بینیفشریز یہی پراجیکٹ ڈائریکٹر، سی ای او اور انکو لگانے والے ہیں۔ اربوں روپے کے فنڈز کو عوام کیلئے استعمال کرنے کی بجائے وہاں تعینات افسران خود کو ورلڈ بینک اور باقی سب کو حقیر سمجھ کر ٹریٹ کرتے ہیں، انکا سب سے پہلے نعرہ ہی یہی ہوتا ہے کہ میں اتنے سو ارب کا مالک اور اکیلا ہائرنگ فائرنگ اتھارٹی ہوں۔ اس لیے گذشتہ روز کے کالم میں، میں نے کسی کی طرف اشارہ نہیں کیا بلکہ آئندہ چند روز میں کام کرنے اور کام ڈالنے والے اے ٹو زی سبھی کے بائی نیم، پلس مائنس 100فیصد ایمانداری سے شئیر کروں گا۔
آج کے ٹاپک کی طرف آتے ہیں کہ جس طرح سنئیر آفیسر نے بتایا کہ وہ سیکرٹری ہوکر اپنے سے پندرہ سولہ سال جونئیر کو اپنے آفس نہیں بلا سکتے تھے کیونکہ کہ وہ فلاں پاور فل آفیسر کا بچہ ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں بیوروکریسی میں بچہ کلچر عام اور زبان زد عام ہوچکا ہے کہ یہ فلاں افسر کا بچہ ہے۔ فلاں کا کماؤ پتر اور فلاں کا ”پلاؤ پتر“ہے۔
بچے بننے کے مختلف مراحل ہے کمائی کے لحاظ سے کماؤ بچوں کی اکثریت بطور سیکشن آفیسر اور سب رجسٹرار کلک ہوتے ہیں۔ کنسیپٹ کلئیر افسران ان سیٹوں پر سنئیر افسران کے مُنشی بن کر پیسہ اکٹھا کرتے ہیں اور یوں صاحب کا بچہ بن جاتے ہیں اور سارا کیرئیر اس سنئیرز کا بچہ بن کر گزار دیتے ہیں وہی سنئیر نہ صرف اس کیلئے پوسٹنگ مینج کرتا ہے بلکہ شیلٹر بھی فراہم کرتا ہے۔ ”تو میکو چوہدری آکھ میں تیکوں چوہدری آکھاں گا “ والی بات کے مترادف سنئیر افسر اور بچہ دونوں جہاں بھی بیٹھیں گے ایک دوسرے کے سو کالڈ کارنامے اور فضائل بیان کریں گے۔
جو افسران جونئیر لیول پر کلک نہیں ہوتے جب گریڈ 18اور انیس میں سسٹم کو سمجھ لیتے ہیں تو جس آفسر کا دامن وہ بچہ بن کر تھامتے ہیں وہ پھر اس کو پوسٹنگ کیلئے ایسے انٹرڈیوس کرواتا ہے کہ سر آپ کو دی بیسٹ بچہ دے رہا ہوں آپ سمجھیں کہ میں خود ہوں آپ کی سوچ سے بھی زیادہ قابل اور ”ریاضی“ کا ماہر ہے لیکن کمٹمنٹ کا پکا ہے اُس کی طرح نہیں کہ ہر جگہ منہ مارتا ہے۔ بیوروکریسی کے بچہ کلچر میں اس بات کو معیوب بھی سمجھا جاتا ہے انکا بچہ ہر کسی کا بچہ نا بنے، بلکہ “لو پروفائل” اور “نان سوشل” رہنا ہے تاکہ بچہ کوئی غلطی نہ کرجائے، بچے تو بچے ہوتے ہیں بعض اوقات نہ بتانے والی بات بھی منہ سے نکال دیتے ہیں اس لیے بچے کو جتنا سنبھال کے رکھا جاسکتا ہو رکھا جاتا ہے۔
مجھے اس وقت شدید حیرانگی ہوئی جب چند ماہ قبل ایک جگہ بیٹھے تھے تو ایک آفیسر نے ایک صاحب سے کہا کہ تم مسلم لیگ ن حکومت کو گالیاں نہ دیا کرو تاکہ تمہیں بھی اچھی پوسٹنگ مل جائے اس نے کہا کہ میں خود ہی پوسٹنگ نہیں لے رہا تھا میں تو سوشل میڈیا سٹار ہوں اس پوسٹنگ میں آرام سے بیٹھ کر پاکستان کی ادبی خدمت کیلئے نئی کتاب لکھ رہا تھا کل ہی فلاں افسر کے پاس ملنے جا رہا ہوں میں تو انکا لاڈلا بچہ ہوں وہ مجھے کبھی انکار نہیں کرتے، پھر ایسا ہی ہوا گذشتہ ماہ دسبر میں اس کے پنجاب میں ایک اہم سیٹ پر آرڈر آگئے لیکن اصل حیرانگی اس بات کی تھی کہ موصوف پچاس سال کی عمر میں بھی بچہ بننا اور کہلانا پسند کرتے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے جب بچہ بننا فائدے کا سودا ہوتو پھر بچہ بننا اور کہلانا فخر اور شیلٹر محسوس کرتے ہیں۔بیوروکریسی میں ابھی اکثریت اس بچہ کلچر کی لعنت سے پاک ہے لیکن جس قدر تیزی سے یہ بچہ کلچر پروان چڑھ رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ بیوروکریسی کی عزت اور وقار بالکل ختم ہوجائے اور ہر کوئی بچہ بننے اور کہلانے کی ڈور میں لگ جائے۔ بچہ کلچر بھی عجیب ہے جو ساری بیوروکریسی کو چلاتا ہے اس نے آگے جتنے بھی بچے رکھے ہیں وہ زیادہ تر بزداریے اور کرپٹ ہیں ان بزداریوں نے آگے جو بچے رکھے ہیں ان کے بارے مشہور ہے کہ اگر ایک وقت میں انکا سگا باپ کال کرے اور دوسری طرف سے پیسوں کی ڈیل کروانے والا ٹاؤٹ تو وہ ٹاؤٹ کی کال پہلے اٹھائیں گے۔ بچہ کلچر کے خاتمے کیلئے سب سے ضروری بات یہی ہے کہ میرٹ بحال ہونا چاہئے جو جس گریڈ میں ہے اسے وہی سیٹ دی جائے نہ کہ گریڈ اٹھارہ میں گریڈ بیس کی۔
میڈم وزیراعلیٰ سے گزارش ہے کہ جس طرح اپنے ڈپٹی کمشنرز کی پوسٹنگ میں کافی حد تک میرٹ کا خیال رکھا ہے ویسے ہی سیکرٹریز، ایم ڈی، ڈی جی، پی ڈی اور سی ای او کی سیٹوں پر بھی ازسرنو تعیناتیاں کی جائیں اور جس طرح آپ پنجاب سے تجاوزات کی لعنت کا خاتمہ کر رہی ہیں اسی طرح پنجاب میں سرکاری افسران کو بچہ کلچر سے بھی پاک کریں۔

Comments (0)
Add Comment