زندگی اک سراب ہو جیسے

عاصم نواز طاہر

زندگی کے گزرے لمحات پر نظر دوڑاتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے ساری زندگی اک سراب اور خواب تھی جس کی حقیقت آج آنکھ کھلنے پر معلوم ہوئی۔ اس خواب میں سرابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے کچھ حاصل نہ ہوا اور جو عذاب سمیٹے ان سے قلب لہو لہان اور عقل و خرد کو پریشان حال پایا۔ اب اس حدیث کا مفہوم سمجھ آیا کہ:

“اس دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ کوئی سرائے ہے اور تم مسافر۔”

اگر ہم قبرستان کے چکر لگائیں تو یہ تلخ حقیقت سمجھ آئے گی کہ مرنے کے بعد ہمارے پیارے اس دنیا کی ناپائیدار رنگینیوں میں کھو کر ہمیں ایسے بھول جاتے ہیں کہ جیسے ہم اس دنیا میں تھے ہی نہیں۔ وہ زندگی جو ہم اپنے اور اپنوں کے لیے انتہائی خود غرضی اور اہتمام کے ساتھ گزارتے ہیں اس کے ختم ہوتے ہی ہم کسی کو یاد تک نہیں رہتے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

کبھی جو زندگی کا گوشوارہ دیکھتا ہوں میں
تو ہر مد میں خسارہ ہی خسارہ دیکھتا ہوں میں

ہم اتنے کم عقل ہیں کہ دنیاوی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ کر اخروی و ابدی زندگی کو بھول جاتے ہیں۔ اتنی سی زندگی میں نفرتوں، مقابلوں،حسد، بخیلی اور سرابی باتوں کاڈھیر اکٹھا کر لیتے ہیں حالانکہ ہمارے وجود سے لے کر ان باتوں تک ہر چیز نے فنا ہوجانا ہے۔ انسان کی دنیاوی و ابدی زندگی دراصل دوسروں کے احساس کے سہارے ہی دائمی حیات پا سکتی ہے۔ احساس وہ آکسیجن ہے جو انسان کو کبھی مرنے نہیں دیتی۔ارشاد ربانی ہے:

“بے شک دنیا کی زندگی فریب اور دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔”

ہم ایک اللہ، رسولؐ اور کتاب کو ماننے والے یہ جانتے تو ہیں کہ ہم پر ایک دوسرے کی عزت،جان اور مال حرام قرار دی گئی ہے لیکن اس فانی زندگی کے جھوئے خوابوں کے پیچھے دوڑتے ہوئے ہم راستہ بھول بلکہ بھٹک چکے ہیں۔ آئے دن بے حیائی، بے مزہبی اور بے دردی کے ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ انسانیت شرما جاتی ہے۔انسان دراصل معاشی حیوان بن چکے ہیں جن کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف معاشی ترقی ہے جس کے لیے وہ اخلاق و خلوص کو بھول چکے ہیں۔ عورتوں اور بچوں کی عزتیں محفوظ نہیں، حلال اور حرام کی تمیز ختم ہو چکی، رشتوں کا تقدس پائمالی کی جانب رواں، یہ قتل، یہ ڈکیتیاں، یہ نسل و نسب پرستیاں، فریب اور درجنوں منفی اعمال ہمارے معاشرے میں اس قدر سرایت کر چکے ہیں کہ ہم اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے اپنے ہاتھوں خریدی جانے والی دنیاوی بےسکونی اور آخرت کے عزابوں کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زندگی کے خواب اور سراب ہونے کی حقیقت کو سمجھ کر مثبت طرز فکر اختیار کی جائے تاکہ خود کو آخرت کے عذاب سے بچایا جاسکے اور لوگوں کی زندگیاں بھی عذاب ہونے سے بچائی جا سکیں۔ کسی شاعر نے زندگی کی حقیقت کس خوبصورتی سے بیان کی ہے:

زندگی اک سراب ہو جیسے
ادھ کھلی اک کتاب ہو جیسے
ایک مشکل سوال ہو جس میں
اور غائب جواب ہو جیسے

زندگی کے اس سراب و خواب ہونے کی حقیقت کو سمجھ کر اپنی آخرت سنورنے کا جتن ہی اس کے مشکل سوال کا حل ہے اور یوں ہی اس ادھ کُھلی کتاب کے خوبصورت اختتام تک جایا جا سکتا ہے۔ اللہ ہمارے پورے معاشرے کو ہدایت کی نعمت عطا کرے۔۔
آمین ثم آمین۔

Comments (0)
Add Comment