خدمات ۔۔۔چودھری مخدوم حسین
سیاست ہر جگہ ہی زیر بحث رہتی ہے ۔شہر ہوں یاط دیہات جہاں چلے جائیں لوگ لوگ ہر معاملے پر سیاست پر گفتگو کرنے لگتے ہیں ۔
حتی’ کہ جن چائے خانوں کے کارنر پر یہ تحریر ہوتا ہے کہ “یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے “وہاں لوگ زیادہ سیاست پر گفتگو کرتے ہیں ۔سیاست دان تو آپس صرف میڈیا کی حد تک بیان بازی کرتے ہیں عام تقریبات میں ایک دوسرے سے بڑی محبت اور اخلاق سے پیش آتے ہیں ،صرف دکھاوے کی دشمنی ہوتی ہے اور وہ بھی عوام کے نام پر !حالانکہ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہنے والے سیاستدانوں کے بیانیہ کو حقیقت سمجھ کر اکثر سادہ لوح عوام تو ان کی خاطر آپس میں دست وگریباں ہونے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔شہر شہر ،گائوں گائوں ،قریہ قریہ، نگر نگر گلی گلی سیاسی مباحث عام ہونے کا سبب عوام کے ہوشربا مسائل ہیں اور سیاستدانوں کی جانب سے ان مسائل سے عوام کو چھٹکارہ دلانے کا بیانیہ ہے جس کو سچ سمجھ کر لوگ انکی حمایت اور کچھ مخالفت کرتے رہتے ہیں ۔پاکستان اور بھارت کے سیاستدانوں کا طریقہ واردات تقریبآ ملتا جلتا ہے ،جس طرح کی ان ملکوں میں ڈرٹی سیاست ہورہی ہے عوام کے فائدے بہت کم اور حکمرانوں کے اللے تللوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں ،پروٹوکول سمیت اشرافیہ کے اخراجات کم نہیں ہوتے جبکہ عام شہریوں کی مشکلات بڑھ رہی ہیں حکمران اشرافیہ کو حقیقتاً عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ،بس زبانی کلامی ہمدردی کے اظہار سے کام چلایا جاتا ہے مسائل جوں کے توں رکھنے کی روایت یوں آگے بڑھائی جاتی ہے ۔لوگ سیاستدانوں کی شعلہ بیاں تقاریر پر سوچتے ہیں پھر انہی سے متاثر ہوکر دھڑے بندیاں بن جاتی ہیں اسی تناظر میں سیاستدانوں کے کچھ حامی اور کچھ مخالفت نکل آتے ہیں ،یہ عملی طور پر سیاسی کارکن تو نہیں ہوتے مگر سیاست کو سرگرم رکھنے میں انہی کا کردار ہوتا ہے اگر عام لوگ سیاست ہر بحث ترک کردیں اور اپنے ضمیر پر صرف الیکشن میں میرٹ پر ووٹ دینے کا ہنر اختیار کرلیں تو بہت ساری خرابیاں ازخود ٹھیک ہو جائیں مگر ایسا نہیں ہوتا ۔اب تو گائوں اور شہر کے زیادہ تر لوگ سیاست پر ہی گفتگو کرناپسند کرتے ہیں ۔عالمی سیاست بھی اب موضوع سخن ہوتی ہے ۔گائوں کے لوگ بھی اب تو عالمی سیاست پر مباحثے کرتے نظر آتے ہیں ۔یاربیلیوں کے ہاتھ آجکل بھارت کے حالیہ الیکشن اور مودی کے تیسری بار حلف اٹھانے کا معاملہ آیا تو کئی دنوں تک یہی زیر بحث رہا ۔
کچھ پاکستان اور بھارت کی سیاست کا موازنہ کرتے رہے بلاشبہ ان مباحٿ کے نتیجے میں یہ بات تو کھل کر سامنے آئی کہ بھارت میں نگران حکومت کے گھن چکر میں پڑے بغیر بھی الیکشن میں دھاندلی کا کوئی الزام سامنے نہیں آیا بھارت کے عوام نے انتہا پسندوں کے بیانیہ کو مسترد کرتے ہوئے ووٹ تقسیم کرکے بی جے پی کے بھاری مینڈیٹ کا تو جنازہ نکال دیا اگرچہ مودی پھر بھی اتحادیوں کا سہارا لیکر تیسری بار لولی لنگڑی حکومت بنانے میں کامیاب رہے ہیں مگر وہ اب اتحادیوں کے دبائو اور مضبوط اپوزیشن کے سامنے اپنی من مانیاں نہیں کرسکیں گے ۔مودی کو پہلے جیسی حکومت نہیں ملی اب حالات مختلف ہئں آئندہ الیکشن کا نقشہ بھی اس حوالے سے واضح ہورہا ہے جہاں بھارت کے سیکولر سیاستدانوں کا غلبہ نظر آتا ہے ۔بھارتی الیکشن کا یہی اہم پہلو اسے پاکستان کے الیکشن سے مختلف اور ممتاز بناتا ہے ۔پاکستان میں کوئی الیکشن بھی ایسے نہیں جن پر دھاندلی کے الزامات نہ لگے ہوں ۔حالیہ الیکشن کو لیکر تو دنیا میں پاکستان کے انتخابی نظام پر ہی سوالیہ نشان لگایا جارہا ہے۔یہاں پروگنڈا بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ان حالات میں بھی جب حکومت اور اپوزیشن والے شفاف الیکشن کے لئے ملکر اتفاق رائے سے نگران حکومت کے قیام کے تقاضے پورے کرتے ہیں پھر بھی دھاندلی کے الزامات سمجھ سے بالا تر ہیں جبکہ مودی جیسے انتہا پسند متعصب حکمران اپنے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے اپنی نگرانی میں الیکشن کرواتا ہے اور پھر اس پر دھاندلی کا کوئی الزام بھی نہیں لگتا ۔اس بار تو وہ اپنی آدھی سے زیادہ نشستیں ہار کر اس مجوزہ الزام سے یکسر بری الذمہ ہوچکا ہے ۔پاکستان کے نظام سیاست کو شفاف بنانے کیلئے پہلے الیکشن میں دھاندلی کے ہر بار لگنے والے الزام سے چھٹکارہ پانا ہوگا ورنہ الیکشن کے نام پر اس سرگرمی کے کوئی معنی نہیں رہیں گے ۔