پاکستان نے خلائی میدان میں ایک اور اہم سنگِ میل عبور کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ آج31 جولائی 2025 کو پاکستان کا نیا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ چین کے ژچانگ سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے خلا میں روانہ کیا جائے گا۔ اس منصوبے کی قیادت سپارکو (سپیس اینڈ اپر ایٹماسفیر ریسرچ کمیشن) نے کی ہے، اور یہ نہ صرف سائنسی اعتبار سے ایک انقلابی پیش رفت ہے بلکہ قومی سلامتی، زرعی ترقی، ماحولیاتی تحفظ اور سی پیک جیسے منصوبوں کی نگرانی میں بھی غیر معمولی کردار ادا کرے گا۔
ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کیا ہے؟ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ وہ مصنوعی سیارے ہوتے ہیں جو زمین کے مختلف حصوں کی تصویری نگرانی کرتے ہیں، بشمول فصلوں کی پیداوار، پانی کی سطح، شہری پھیلاؤ، جنگلات، برفانی ذخائر، اور یہاں تک کہ قدرتی آفات کے آثار۔ ان سیٹلائٹس میں نصب حساس کیمرے اور سینسر خلا سے زمین کے حالات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔پاکستان کا یہ نیا سیٹلائٹ، جو کہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہے، زمین کے مدار میں گھوم کر ہمارے ملک کے زمینی، ماحولیاتی اور شہری حالات پر گہری نظر رکھے گا۔
زراعت میں انقلاب کی نوید ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جہاں معیشت کا ایک بڑا انحصار کھیت کھلیان پر ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے کسان آج بھی موسمی اندازوں، روایتی حساب کتاب اور اکثر بے یقینی کے عالم میں کاشت کاری کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی گندم ضرورت سے کم ہو جاتی ہے تو کبھی پیاز و ٹماٹر کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔
نیا سیٹلائٹ ان مسائل کا دیرپا حل پیش کرتا ہے۔ یہ فصلوں کی صحت، نمی کی مقدار، مٹی کی نوعیت، اور پانی کی دستیابی جیسے عوامل پر ڈیٹا فراہم کرے گا۔ یوں حکومت، زرعی ادارے، اور خود کاشتکار بہتر فیصلے کر سکیں گے۔ اب موسمیاتی تبدیلی یا بارش کی کمی زیادتی سے پیدا ہونے والے بحران کی پیشگی نشاندہی ممکن ہو جائے گی۔
قدرتی آفات کی پیشگی تیاری؛
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو زلزلوں، سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشیئرز کے پگھلاؤ جیسے خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ ماضی میں 2005 کا زلزلہ، 2010 کا سیلاب یا 2022 کی تباہ کن بارشیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ پیشگی تیاری نہ ہو تو آفت، قیامت بن کر ٹوٹتی ہے۔
یہ سیٹلائٹ زمین کی پرتوں میں ہونے والی تبدیلیوں، دریاؤں کے بہاؤ، برفانی ذخائر کے حجم، اور زمینی کٹاؤ پر مسلسل نظر رکھے گا۔ کسی بھی ممکنہ آفت کے آثار کا بروقت اندازہ لگایا جا سکے گا، اور یوں قیمتی جانوں اور املاک کو بچانے کے لیے بروقت قدم اٹھائے جا سکیں گے۔سی پیک اور ترقیاتی منصوبوں کی فضائی نگرانی
چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) نہ صرف پاکستان کی معیشت بلکہ علاقائی جغرافیائی سیاست کا بھی مرکز بن چکا ہے۔ اس راہداری کے تحت سڑکیں، بندرگاہیں، بجلی گھر، انڈسٹریل زونز، اور انفراسٹرکچر کے کئی منصوبے مکمل یا جاری ہیں۔
نیا سیٹلائٹ ان منصوبوں کی فضائی نگرانی میں ایک خاموش محافظ کا کردار ادا کرے گا۔ چاہے گوادر کی بندرگاہ ہو یا تھر کے کوئلے کے پاور پلانٹس، ہر سرگرمی پر گہری نظر رکھی جا سکے گی۔ کسی بھی غیر قانونی سرگرمی، زمین کی چوری، یا ماحولیاتی نقصان کی شناخت سیٹلائٹ کے ذریعے ممکن ہو گی۔
ماحولیاتی تحفظ کا نیا پہرہ دار:
گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تباہی دنیا کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ پاکستان بھی اس تباہی کی زد میں ہے۔ جنگلات کی کٹائی، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلاؤ، پانی کی قلت، اور زمین کی زرخیزی میں کمی جیسے مسائل ہمارا مستقبل تاریک بنا رہے ہیں۔
یہ نیا سیٹلائٹ، جنگلات کے علاقوں پر نظر رکھے گا کہ کہاں درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ اسی طرح گلیشیئرز کے حجم میں سال بہ سال کمی کو نوٹ کیا جا سکے گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی سائنسی بنیادوں پر پیشگوئی کی جا سکے گی، جس سے ماحولیاتی پالیسیوں میں مؤثر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
تیزی سے پھیلتے شہروں اور بے ہنگم بستیوں نے شہری منصوبہ بندی کو بےحد مشکل بنا دیا ہے۔ لاہور، کراچی، فیصل آباد، راولپنڈی جیسے شہر بےترتیب تعمیرات اور تجاوزات کی زد میں ہیں۔ اب سیٹلائٹ کی مدد سے کسی شہر کی حد بندی، آبادی کے پھیلاؤ، پارکنگ اسپیسز، گرین ایریاز، اور نئی کالونیوں کا جائزہ لینا ممکن ہوگا۔
یعنی شہر اب زمینی سروے پر نہیں بلکہ خلائی بصیرت پر مبنی منصوبہ بندی سے بہتر بنائے جا سکیں گے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی سمت میں خود انحصاری
اس کامیابی کا ایک سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کے اپنے سائنس دانوں اور ماہرین نے سپارکو کی قیادت میں تیار کیا ہے۔ جب ہم خلا میں اپنے قدم رکھتے ہیں تو یہ محض ایک سیٹلائٹ لانچ نہیں، بلکہ اپنے نوجوانوں کو سائنسی سوچ کی طرف مائل کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔
یہ منصوبہ پاکستانی طلبہ، انجینئرز، ڈیٹا سائنٹسٹ اور ماحولیاتی ماہرین کے لیے ایک تحقیقی خزانہ ثابت ہو گا۔ اب خلائی ڈیٹا پاکستانی یونیورسٹیوں اور اداروں کو دستیاب ہو گا، جس سے ہمارے تعلیمی معیار میں بھی بہتری آئے گی۔
بین الاقوامی تعاون کا قابلِ فخر باب:چین اور پاکستان کا یہ مشترکہ قدم، دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات کی ایک اور درخشاں مثال ہے۔ ژچانگ لانچ سینٹر سے یہ سیٹلائٹ خلا میں بھیجا جائے گا، جو نہ صرف تکنیکی تعاون بلکہ اعتماد، دوستی اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔
پاکستان کا نیا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ، خلا میں ہمارا ایک اور روشن قدم ہے۔ یہ قدم زمین پر کسان کی خوشحالی، شہری کی آسانی، ماحولیاتی توازن، قدرتی آفات سے تحفظ اور قومی ترقی کے ایجنڈے سے جڑا ہے۔ جب قومیں خلا میں آنکھیں رکھتے ہوئے زمین کے فیصلے کرتی ہیں، تب وہ خود مختاری، ترقی اور استحکام کی طرف بڑھتی ہیں۔آیئے، اس قومی کامیابی پر خوشی منائیں، اور یہ عہد کریں کہ ہم اپنے وسائل، صلاحیتوں اور سائنس سے محبت کرنے والے نوجوانوں کو وہ ماحول دیں گے، جس سے پاکستان واقعی خلا میں ایک قدم نہیں، بلکہ ایک مسلسل سفر کی طرف بڑھے۔