خونی رشتوں کا استحصال

تحریر : بدر راجپوت

آج جسں عنوان کو میں تحریر کرنے لگی ہوں مجھے یوں لگتا ہے کہ اس عنوان کے تمام الفاظ اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے رو رہے ہیں
اور وہ حقیقت یہ ہے کہ آج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں ہمارے خونی رشتے جںن میں ہمارے والدین، ہمارے بہن، بھائی ،ہماری اولاد اور دیگر عزیز و اقارب شامل ہیں عدم توجہ ،بے حسی ،بے بسی ،اضطراب کا شکار ہو چکے ہیں
کہنے کو یہ دور جدید ترقی اور معاشی خوشحالی کی دوڑ میں شامل ہونے کا ہے اور ہم سب اس دور حاضر کی اندھی، کھوکھلی، نام نہاد ترقی اور معاشرتی خوشحالی کے سحر میں اس قدر گم ہو چکے ہیں کہ ہمارے پاس ہمارے رشتوں کو نبھانے اور ان کو سمجھنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے
آج ہمارے خونی رشتے حسن سلوک تو دور کی بات ہے صلہ رحمی کے جذبے سے بھی عاری ہو چکے ہیں
ہمیں اس بات سے اب کوئی سروکار نہیں کہ ہمارا بہن یا بھائی دکھی ہے تنگ دست ہے یا اسے ہماری توجہ، محبت کی ضرورت ہے ہمیں تو بس اب فکر ہے کہ ہمارا معاشرے میں سٹیٹس اور بینک بیلنس کتنا ہے
آج حالت زار یہ ہے کہ اگر کس کا کوئی رشتہ دار معاشرتی طور پر مستحکم ہے وہ معاشرے میں اچھا رتبہ اور مالی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا کوئی بہن یا بھائی غریب و نادار ہے یا وہ سفید پوش ہونے کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا تو وہ اس کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا اس کی تنگدستی میں کام آنا تو دور کی بات وہ اپنی شان و شوکت کا اس پر رعب و دبدبہ قائم کرتے ہوئے ہمیں نظر آۓ گا
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
خونی رشتے کیوں بے حسی کا شکار ہو چکے ہیں؟
کیوں ہم مدد کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود اپنے رشتہ داروں کی مدد نہیں کرتے ؟
أخر ہم اتنی تیزی سے خونی رشتوں کا استحصال کیوں کر رہے ہیں ؟

کاش ہم سب یہ حقیقت جان سکیں کہ ایک خاندان جس میں والدین، اولاد، بہن، بھائی اور دیگر رشتہ دار شامل ہیں کی مثال ایک درخت کی مانند ہے اور یاد رہے کہ اس درخت کے پھلنے پھولنے اور قائم رہنے کے لیے یہ بات ناگزیر ہے کہ اس درخت کی تمام شاخیں ہری بھری اور توانا رہیں
اللہ تعالی قرآن پاک میں بار بار فرماتا ہے کہ جو لوگ صاحب فضل اور صاحب وسعت ہیں وہ محتاجوں اور رشتہ داروں کی مدد کریں پھر ہم لوگ ایک دوسرے سے قطع تعلقی کیونکر اختیار کیے بیٹھے ہیں
ہمارے خونی رشتوں میں یہ دشمنیاں ،یہ بغض وحسد کیونکر سرایت کر گیا ہے حالانکہ ہمارے دین اسلام میں ان باتوں کی سخت ممانعت ہے

الله تبارک کے آخری نبی محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے
“کہ سرکشی اور قطع تعلقی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا گناہ نہیں کہ الله تعالی دنیا میں فورا اس گناہ کے کرنے والے کو سزا دے اور اس کے ساتھ آخرت میں بھی سزا دے
ایک اور مقام پر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
” قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا ”
رشتوں کو پیار و محبت سے جوڑنے کے حوالے سے ایک حدیث مبارکہ میں ہے:

حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ وبرتر ارشاد فرماتاہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمان ہوں، میں نے رحم یعنی رشتے ناطے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمٰن کے لفظ سے نکالا ہے، لہٰذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتے ناطے کے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناطے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص سے) جدا کردوں گا“۔

آج میں اپنی اس تحریر کے توسط سے اپنے قارین سے یہ التماس کرنا چاہتی ہوں کہ وہ فیس بک، سوشل میڈیا انٹرنیٹ اور دیگر سماجی تعلقات کے ذرائع ابلاغ سے ہٹ کر ایک لمحے کے لیے اپنا محاسبہ کریں کہ انہوں نے اپنے اپنے رشتوں کو کتنا وقت دیا ہے اور کتنا سنبھال کر رکھا ہوا ہے
آپ سب میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہم واٹس ایپ ،فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پہ بڑے پیار محبت اور توجہ سے ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں نت نیۓ رشتے بناتے ہیں اور بڑی بڑی اسلامی باتیں کرتے ہیں اور جب ہم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں تو وہ صرف باتیں ہیں جو ہم کرتے ہیں اپنے آپ کو لوگوں میں اچھا بنانے کے لیے
اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اپنے خونی رشتے ہماری توجہ ،محبت اور حسن سلوک کے منتظر ہیں۔
آئیے ہم سب اس بات کا عہد کریں کہ ہمیں اپنے خونی رشتوں کا اب مزید استحصال نہیں کرنا اور ماضی میں جو کر چکے ہیں اس کا ازالہ کرنا ہے۔

Comments (0)
Add Comment