ن و القلم ۔۔۔مدثر قدیر
جمیل فخری مرنجاں مرنج شخصیت کے حامل تھے ۔ڈرامہ کی ریکارڈنگ کے دوران ان کے بے ساختہ جملے ہمیں اکثر ہنسنے پر مجبور کردیتے تھے
میرے جیسا جونئیر صداکار اگر ڈائیلاگ بولتے بولتے اپنے رستے سے ہٹنے لگتا یاں اپنے ٹیمپو سے نکل جاتا تو جمیل فخری مائیک پر ہی اس کے الفاظ کو اپنی زبان سے ادا کرکے ڈرامہ کو ری ٹیک نہ ہونتے دیتے مگر سین کے ختم ہونے کے بعد برجستہ جملوں کو جو دور شروع ہوتا اس کا اثر خورشید علی کی باتوں سے محسوس کیا جاسکتا تھا جو اسٹوڈیو میں داخل ہوکر صداکار کو اچنبھی نظروں سے گھورتے اور جمیل فخری کی برجستہ گفتگو کو آگے بڑھاتے۔
کیا دور تھا ریڈیو ڈرامہ کی ریکارڈنگ کا ایسا لگتا جیسے ہم کسی پکنک کو انجوائے کررہے ہیں جتنا چیک ریڈیو ڈرامہ کا جمیل فخری کو ملتا اس اسے زائد تو وہ ہماری مہمان نوازی میں لگا دیتے ۔1990کی دھائی بڑی مردم خیز تھی اور ریڈیو پاکستان لاہور میں تو صداکاروں کی بھر پور کھیپ تھی جن میںریحانہ صدیقی ،منور سعید، غیور اختر،حیدر عباس،منیر نادر،ایم شریف،اصغر زیدی، عنایت انجم،نذیر حسینی اور ان جیسے بڑے صداکار جو مائیک پر موجود ہوتے تھے اور بچپن ہی سے ریڈیو کی ایسوسی ایشن نے مجھے ان لوگوں سے ملوایا اور پھر میں نے ان جیسے جید صداکاروں کی شفقت میں اپنے ریڈیائی سفر کو آگے بڑھایا۔جمیل فخری سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی مجھے نہیں معلوم مگر میں نے ان کے ساتھ کئی ریڈیائی ڈراموں میں بچوں اور بعد میں ان کے بیٹے کا کردار ادا کیا ،مجھے یاد ہے کہ ایک سیریز دکھ سکھ ساڈے میں ،میں ان کا بیٹا بنا جو سیریز کا مرکزی کردار تھا ۔
جمیل فخری شہر دار تھے ان کی رہائش بادشاہی مسجد کے سامنے قلعہ لکشمن سنگھ میں تھی اور میں کبھی کبھا ر ان کے ہاں چائے پینے جایا کرتا تھا ۔ جمیل فخری مردم شناس اور انسان دوست شخصیت تھے ان کے پاس شیراڈ گاڑی تھی مگر جب بھی وہ ریڈیو ڈرامہ کے لیے تشریف لاتے تو گاڑی گھر پر چھوڑ کر آتے اور ریکارڈنگ ختم ہونے کے بعد پیدل براستہ لکشمی چوک،گوالمنڈی،لوہاری گیٹ،اندرون بھاٹی گیٹ سے ہوتے ہوئے گھر پہنچتے ،کئی بار ڈرامہ ختم ہونے کے بعد میں بھی ان کے ہمراہ پیدل مارچ کرتا جاتا اور اس دوران ہم لکشمی چوک سے حلیم یاں چنے کھاتے اور وہ مجھے میرے گھر کی گلی میں چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف بڑھ جاتے
ایک دن میں نے ان سے ا س پیدل مارچ بارے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ یار راستے میں آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک انسان ملتا ہے لوگوں کا رش نظر آتا ہے لوگ آپ کو سلام کرتے ہیں اور ہم ان کو سلام کا جواب دیتے ہیں ایک خیر سگالی کے جزبے کا احساس ہوتا ہے کہ میں اکیلا نہیں لوگوں کا ہجوم ہمراہ ہے جو ہم سے ملنا چاہتا ہے بات کرنا چاہتا ہے سلام کرنا چاہتا ہے اور دیکھو ہم نے ابھی تک کتنے لوگوں کے سلام کا جواب دیا ہے ۔ایک بار جمیل فخری نے گوالمنڈی سے گزرتے ہوئے ایک گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس گلی میں میرا کئی بار آنا جانا ہوا ہے
یہ اندر داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ جو آخری مکان ہے وہ خواجہ پرویز صاحب کا ہےاس پر میں بڑا ہنسا انھوں نے وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ میں ان کا بھتیجا ہوں بات آئی گئی ہوگئی ایک بار ایورنیو اسٹوڈیومیں خواجہ پرویز صاحب کے پاس بیٹھے میری ملاقات جمیل فخری صاحب سے ہوئی تو انھوں نے خواجہ صاحب کو کہا کہ یہ کہتا ہےکہ آپ اس کے چچا ہیں جو خواجہ پرویز نے جواب دیا جھوٹ بولتا ہے
یہ میرا چھوٹا بھائی ہے اس کے بعد ماحول جمیل فخری کےنہ رکنے والے قہقہوں سے گونجنے لگا ۔ جمیل فخری کی اداکاری فطری رنگ کی عکاس تھی ان کو جو رول بھی دیا گیا انھوں نے اس کے ساتھ بھر پور انصاف کیا گو ریڈیو پاکستان کے لیے ان کی خدمات میرے بزرگ غیور اختر،اصغر زیدی ،حید عباس اور منیر نادر کے مقابل میںکم تھیں مگر انھوںنے صداکاری کے میدان میں بھی اپنا بھر پور رنگ چھوڑا ان کی اداکاری کا آغاز اسٹیج سے ہوا جہاں سے یہ فلم کی طرف بڑھے اور بعد میں پاکستان ٹیلی ویژن سے ان کے ان گنت ڈرامے ٹیلی کاسٹ ہوئے جن میں ان کے ادا کیے گئے کرداروں نے دھوم مچائی ۔
چاچا عبدل رشید نے گزشتہ دنوں مجھے بتایا کہ ڈرامہ سیریل اندھیر ااجالا میں جب ساری کاسٹنگ مکمل ہوگی تو پہلے اے ایس پی طاہر کا کردار کسی اور آرٹسٹ کو دیا گیا مگر جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ کے کردار جو اس اس سیریل کی جان تھے تو ان دونوں کو بیلنس کرنے کے لیے جس اداکار کو اے ایس پی بنایا گیا اس کے سامنے یہ دونوں کردارطاقتور دکھائی دینے لگے جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ محمد قوی خان کو اگر ایس پی کا کردار دیا جائے تو یہ تینوں کردار بیلنس ہوجائیں گے اور پھر آپ نے دیکھا کہ محمد قوی خان کا کردار جو سچ کا سمبل تھا ان دونوں کرداروں کو بیلنس کرگیا ۔بات ہورہی تھی جمیل فخری کے ایکٹنگ اسٹائل کی تو ان کا اسٹائل زمین سے جڑا تھا انھوں نے لوگوں کی جتنی اچھی آبزویشن کررکھی تھی وہ کم اداکار کرتے ہیں جیسے آپ نے ان کو اگر پہلوان کا کردار دیا تو وہ اقعی ہی پہلوان نظر آئیں گے اگر کرپٹ ،راشی آفیسر کا کردار ملا تو وہ بھی انھوں نے ڈوب کر کیا یعنی وہ زندگی کی ہر لائن کو محسوس کرکے اس میں ڈوب جاتے
جس کے نتیجہ میں دیکھنے والوں کو ان کی ایکٹنگ پر حقیقت کا گمان ہوتا ۔جمیل فخری ایکٹنگ کے دوران اپنے چہرے کے تاثرات اتار چڑھائو سے وہ کچھ کہ جاتے جو صرف ان ہی کی اداکاری کا خاصہ تھا ۔2004 میںوالد کی وفات کے بعد جب میں نے صحافت کی جانب قدم رکھا تو طویل عرصے کے لیے ریڈیو سے دور ہوگیا اسی دوران مئی کی جھلستی ہوئی گرمی میں ایک دن شملہ پہاڑی کو کراس کرتے ہوئے ایک گاڑی میرے نزدیک آکر رکی اور اس میں سے ایک آواز آئی کدھر جاریا ایں میں نے غور کیا تو جمیل فخری تھے میں نے کہا کہ پریس کلب کہنے لگے گھر چکر لگا لینا مجھے کچھ ضروری کام ہے میں نے سرہلایا اور وہ آگے بڑھ گئے یہ میری اور ان کی آخری ملاقات تھی مجھے ان کے دل پر گزر رہی کیفیت کا علم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔
دوسرے روز مجھے اطلاع ملی کہ ان کو فالج ہوا ہے اور ان کو وینٹی لیٹر پر شفٹ کردیا گیا ہے جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے اور 9جون 2011 کو وفات پاگئے ۔جمیل فخری نے بہت سے ٹیلی ویژن ڈراموں میں حصہ لیا اور ہر طرح کے کردار نبھائے۔ ایک حقیقت ایک افسانہ میں ان کی کاوش، مشہور کامیڈی سیریز الف نون میں مختصر کردار، وارث اور پیاس میں معنی خیز کردار پاکستانی ٹیلی ویژن پر اداکاری کی بہترین مثالیں ہیں۔ وہ زندگی سے بھرپور انسان تھے مگر جب کیمرے کے سامنے آتے تو ان کی شخصیت تبدیل ہوجاتی جو ان کی انسان دوستی اور کرداروں کی نفسیات کو سمجھ کراپنے اوپر طاری کرنے کی خوبی تھی جس کی وجہ سے وہ پاکستانی سکرین ہر ہمیشہ ذندہ ر ہیں گے۔