تحریر: سیماب سحر سیمی (جڑانوالہ)
حیدر قریشی کی شریک حیات مبارکہ جی کی ستائیس مئی کو پانچویں برسی ہے ، حیدر قریشی اور ان کے رفقائے کار،عزیزواقارب،شاعروں،ادیبوں نے اپنے اپنے تئیں حسبِ توفیق مبارکہ جی کو خراج تحسین پیش کیاہے ، ان کی یادیں بھی شئیر ہو رہی ہیں اور ان کے حق میں دعائیں بھی کی جارہی ہیں ،یوں سمجھیئے کہ بہت ہی مستحسن قدم ہے ، برسی منانا اور ختم درود اگرچہ ہمارے ہاں مروج ہے ، لیکن زیادہ تر ماں باپ کے لیے ۔۔ شریک حیات(بیوی) کے لئے زیادہ پاپڑ نہیں بیلے جاتے نہ ان کی حیات مبارکہ میں نہ بعد از حیات ۔۔۔ حیدر قریشی پورے استقلال کے ساتھ اپنی شریک حیات مبارکہ جی کے ساتھ گزرے ماہ و سال پر آگے پیچھے تین کتابیں لکھ کر ان کو نہ صرف منظر عام پر لائے بلکہ ہم سب کے لیے مشعلِ راہ بنے ،اس پاکیزہ ، مقدس رشتے کو عموماً کم ظرف لکھاری حضرات بے ڈھنگے لطیفوں اور مزاحیہ شاعری میں بیان کرکے اس خوبصورت رشتے کا تقدس پامال کرتے ہیں ،، ایسے میں حیدر قریشی کا یہ اقدام قابلِ تعریف وتوصیف ہے ،
یہ بہت بہادری کا کام ہے۔اپنی نجی زندگی کو بے تکلفی کے ساتھ پبلک کرنا ۔کیونکہ ہمارے ہاں ایسے معاملات میں نیگیٹویٹی اور تنگ نظری بھی عام ہے ، اچھے اور مثبت انداز فکر کو سپورٹ کرنے کی بجائے ہم لوگ اس میں کوئی نہ کوئی حاسدانہ منفی پہلو نکال لیتے ہیں ، بہرحال حیدر قریشی ایسے لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتے ، انھوں نے اپنے قریباً سبھی فیملی ممبرز کو اسی محبت و شفقت سے متعارف کیاہے۔والدین،بھائی بہن،بال بچےاور دوسرے اہم رشتے حیدر قریشی کی تحریروں میں زندگی گزارتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،انہیں پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے کہ ہم اپنے ہی خاندان کے مختلف افراد سے مل رہے ہیں ۔رشتوں کا خلوص جو ہماری خوبصورت روایات کا خاصہ ہے
آ پ کی تحریروں میں بدرجہ اتم موجود ہے ، آ پ کی خاکہ نگاری،یاد نگاری،سوانح نگاری اور دیگر تحریریں اس لحاظ سے ادبی حلقوں میں نمایاں اور امتیازی حیثیت کی حامل ہیں۔
آ ج جبکہ ہماری خوبصورت معاشرتی روایات دم توڑ رہی ہیں حیدر قریشی صاحب نے اس میں نئی روح پھونکی ہے ، آ دم و حوا کی کہانی میں رنگ بھرے ہیں ، یہ سب پڑھتے ہوئے اور اب ان پر یہ تاثرات لکھتے ہوئے ایک روحانی خوشی محسوس ہو رہی ہے ۔ہر بات میں ایک آن ہے ۔حالیہ تاثرات میں بہت دلچسپ اور مزے کی باتیں ہیں لیکن عظمیٰ احمد نے مائیکے کی پہلی روایتی عیدی اور آخری عیدی کی جو روداد بیان کی ہے اسے پڑھ کر آنکھیں بھی نم ہوگئیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سی پھیل گئی ۔حیدر قریشی نے تین کتابوں میں جو کچھ پیش کیا ہے وہ اپنی اہلیہ مبارکہ جی کی خوبیوں کا اعتراف ہے۔ اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں جو واقعتاً ہماری قدروں اورروایتوں کے امین ہیں ، اللہ پاک ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے ۔دل کی گہرائیوں سے دعائے کہ اللہ پاک مبارکہ جی پر رحمت نازل کرتا رہے۔۔