(یومِ آزادی اور تحریکِ، قیامِ پاکستان میں مسیحیوں کا کردار)

(تحریر و تحقیق پاسٹر ڈاکٹر مرقس شریف) چئیرمین ابتدائی روسولی کلیسیاء آف پاکستان

آزادی کا مطلب بے راہ روی نہیں بلکہ اطاعت و فرمانبرداری ہے جس میں مذہب اور قوانین کی فرمانبرداری شامل ہے تاکہ انسان مذہبی اور ملکی قوانین کی فرمانبرداری مطمئن ضمیر کی آزادی کے ساتھ کر سکے۔14اگست 1947ء کو پاکستان ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے دُنیا کے نقشہ پر اُبھرا۔یہ آزادی غیر شریعی فرسودہ رسومات اور فرنگیوں کے تسلط سے تھی۔آزادی حاصل کرنے کے لیے انگنت قربانیاں دی گئیں یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان آگ اور خون کا دریا عبور کر کے حاصل کیا گیا۔ جس میں مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ مسیحی برادری کی بھی قربانیاں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب مسلمان مہاجر ہو کر انڈیا سے لٹے پٹے آئے تو مسیحیوں نے اپنے گھروں چوپالوں سکولوں ہسپتالوں اور گرجا گھروں کے دروازے کھول کر نجر ان کے مسیحیوں کی یاد تازہ کر دی پاکستان کی بنیادوں میں مسیحیوں کا خون شامل ہے۔ جس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب سِکھ رہنماماسٹرتارا سنگھ نے ا پنی کرپان تلوار لہراتے ہوئے نعرہ لگایا کہ”جو مانگے گا پاکستان اُس کو دیں گے قبرستان“ تواس کے جواب میں دلیر مسیحی رہنما دیوان بہادر ایس پی سنگھانے اسمبلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کرنعرہ بلند کیا۔ ”سینے پر گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے“۔مسیحیوں کایہ نعرہ زبانِ زد عام ہوا۔ مسیحیوں کی تحریک ِ، قیامِ پاکستان میں گرانقدر خدمات ہیں۔ہندو رہنماؤں جواہر لال نہرو اور پٹیل صاحب نے مسیحی رہنماؤں کے جوش ولولہ اور جلسے جلوسوں میں شرکت کو دیکھتے ہوئے درخواست کی کہ وہ انڈیا کا ساتھ دیں لیکن مسیحیوں نے وفاداری نہ بدلی بلکہ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کا ساتھ دے کر پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا جس کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کسی جرنیل نے فتح نہیں کیا بلکہ یہ قوت ایمانی اور ووٹ کی طاقت سے بنا اور 23جون 1947 کو 3 مسیحیوں نے اپنا فیصلہ کُن ووٹ پاکستان کے حق میں کاسٹ کر کے تاریخ رقم کی ہے۔ تحریکِ قیامِ پاکستان کی طرح پاکستانی مسیحی برادری استحکامِ پاکستان کے لیے بھی شبانہ روز انتھک محنت سے اپنا پُر وفا مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔ 1931 کی دوسری گول میز کانفرنس میں سر آغا خان کی سربراہی میں تحریکِ پاکستان میں مسیحیوں کی باقاعدہ شمولیت کا آغاز ہوا جس میں مسیحی برادری کی جانب سے سر ہنری گڈنی اور سر ہربرٹ کار نے بھرپور نمائندگی کی اور یہ علیحدہ وطن کا مطالبہ اور معاہدہ کیاگیا یہ معاہدہ اقلیتوں کا معاہدہ کہلایا۔ مسیحی رہنما دیوان بہادر ایس پی سنگھا کی قیادت میں تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں نمایاں کردار شامل ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کی اپیل پر 22دسمبر1939ء کو یومِ نجات منایا گیاجس میں مسلمان وزراء نے کانگریس کی نشستوں سے استعفیٰ دے دیا۔ پنجاب بھر کے مسیحیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔آل انڈیا کرسچن ایسوسی ایشن اور مسیحیوں کے دلیر رہنما ایس پی سنگھانے یومِ نجات کو کامیاب کروانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے اپنا حصّہ ڈالا تو ہندوؤں کے 14طبق روشن ہو گئے۔23مارچ1940ء کو منٹو پارک لاہور میں مسلم لیگ کے تاریخی جلسہ میں مسیحی برادری نے ایس پی سنگھا کی قیادت میں بھرپور شرکت کی اس جلسہ میں سابق ڈپٹی سپیکرمسیحی رہنما چوہدری چندولعل ایڈووکیٹ بھی ساتھیوں سمیت شامل ہوئے۔مسلم لیگ کے 18نومبر1942ء کو لائل پور(فیصل آباد)میں دھوبی گھاٹ کے تاریخی جلسہ میں آل انڈیا کرسچن ایسوسی ایشن کی طرف سے باقاعدہ سپاس نامہ پیش کیا گیا۔ 20نومبر1942ء کو دیوان بہادر ایس پی سنگھا کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناح کے اعزاز میں لاہور میں استقبالیہ دیاگیا جس میں محترمہ فاطمہ جناح کے علاوہ قائداعظم کے قریبی ساتھیوں نے بھی شرکت کی۔ایس پی سنگھا کا لگایا ہوا نعرہ ”آج سے جناح ہمارے قائد ہیں“ بہت مقبول ہوا۔ 1946ء کے عام اور اہم انتخاب پاکستان کا قیام یقینی بنانے میں سنگ ِمیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 23جون1946ء کو متحدہ پنجاب اسمبلی کیاجلاس کی صدارت دیوان بہادر ایس پی سنگھا نے بطورِ سپیکر کی۔ جب ہندوستان اور پاکستان کے حق میں کانگریس اور مسلم لیگ کے ووٹ 88,88برابر ہو گئے تومسیحی ممبر اسمبلی ماسٹر فضل الٰہی، سی ای گبن اور پاکستان کے بانی رکن ایس پی سنگھا نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔3مسیحی رہنماؤں کے ووٹوں سے مسلم لیگ اور پاکستان کے ووٹوں کی تعداد 91ہو گئی یوں پاکستان کو فیصلہ کن برتری نصیب ہوئی جو کہ مسیحیوں کے ووٹوں سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ 11 اگست 1947کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم سب آزاد ہو اپنی مساجد مندروں اور عبادت گاہوں میں جانے کے لیے ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ پاکستان سب کا ہے اسی تقریر کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی حکومت 2013 نے شہید شہباز بھٹی کی درخواست پر 11اگست کو مینارٹی ڈے منظور کیا۔ باؤنڈری کمیشن میں بھی ایس پی سنگھا نے پیش ہو کر مطالبہ اور اپیل کی کہ ہمارے اکثریتی علاقے مسلمانوں کے ساتھ پاکستان میں شامل کیے جائیں۔ 17اگست1947ء کو پریس کانفرنس کر کے باؤنڈری کمیشن کے سربراہ سر ریڈ کلف کے خلاف احتجاج کرنے والے بھی دلیر رہنما ایس پی سنگھا تھے کیونکہ سازش سے پاکستان کے علاقے ہندوستان کو دیئے گئے تھے۔ 68سال بعد مسیحیوں کے عظیم دلیر رہنما دیوان بہادر ایس پی سنگھا کی تحر یک اور قیامِ پاکستان کے لیے خدمات کے اعتراف میں ن لیگ کی حکومت نے 29اپریل2016ء کو اُن کے نام پر یادگاری ٹکٹ جاری کیا یہ تو مسیحی برادری کے ایک سپوت کی بات ہوئی ہے۔ ایسے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کردار ہیں جنہوں نے تحریک، قیامِ پاکستان کے لیے قربانیاں دیں اور لاکھوں ہیں جو استحکامِ پاکستان کے لیے اپنی جان لڑا رہے ہیں۔ مسیحی برادری نے تعلیم، طِب کا میدان ہو یا پھر افواجِ پاکستان کا کوئی بھی محاذ ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے نہ صرف وفاداری کا ثبوت دیا ہے بلکہ فخر سے شہادتوں کو بھی گلے لگایا ہے۔اب

Comments (0)
Add Comment