پاک ، امریکہ تعلقات کا نیا سفر

آج کا اداریہ

روسی تیل کی خریداری پر بھارت اور امریکہ میں ٹھن گئی ، اس معاملے پرصدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہہ دیا کہ وہ روسی تیل کی خریداری کے معاملے پر بھارت پر ٹیرف میں نمایاں اضافہ کریں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ بھارت نہ صرف بڑی مقدار میں روسی تیل خرید رہا ہے، بلکہ وہ اس تیل کو اوپن مارکیٹ میں بڑے منافع کے لیے فروخت کر رہا ہے۔
بھارت کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے ۔جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ خود روس سے ایٹمی مواد منگواتا ہے ۔جبکہ یورپ کی بیشتر تجارت کا انحصار روسی مصنوعات پر ہے۔
واضح رہے کہ ہفتے کے آخر میں 2 بھارتی حکومتی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ بھارت امریکی ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود روس سے تیل کی خریداری جاری رکھے گا، تاہم ذرائع نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے شناخت ظاہر نہیں کی تھی۔
اس سے قبل 30 جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جبکہ روس سے مسلسل فوجی ساز و سامان اور تیل کی خریداری پر بھارت پر جرمانہ بھی عائد کر دیا گیا تھا۔
امریکی صدر نے ٹروتھ سوشل پر اپنے اکاؤنٹ پر کی گئی پوسٹ میں بھارت پر یکم اگست سے 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
اپنی پوسٹ میں امریکی صدر نے مزید کہا تھا کہ اگرچہ بھارت ہمارا دوست ہے، لیکن ہم نے برسوں میں اس کے ساتھ بہت کم تجارتی لین دین کیا، کیونکہ اس کے ٹیرف (محصولات) بہت زیادہ ، سب سے زیادہ ہیں۔
امریکی صدر نے کہا تھا کہ بھارت ہمیشہ سے اپنے فوجی ساز و سامان کی بڑی مقدار روس سے خریدتا آیا ہے اور توانائی کے معاملے میں بھی روس کا سب سے بڑا خریدار ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی و روسی کشمکش کے درمیان بھارت امریکی پابندیوں کی زد میں آسکتا ہے _
قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت اور روس کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دونوں ملکوں کی معیشتوں کو مردہ قرار دیاتھا۔
امریکی صدر نے اپنے ’ٹروتھ سوشل‘ میں کہاتھا کہ ’مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ بھارت روس کے ساتھ کیا کرتا ہے، وہ اپنی مردہ معیشتوں کو ساتھ لے کر ڈوب جائیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا‘۔
انہوں نے یہ بھ کہا تھا کہ ’ہم نے بھارت کے ساتھ بہت کم کاروبار کیا ہے کیونکہ ان کے ٹیرف دنیا میں سب سے زیادہ ہیں، اسی طرح روس اور امریکا کے درمیان بھی تقریباً کوئی تجارت نہیں ہوتی، ایسا ہی رہنے دیں‘۔
اس سے قبل انہوں نے پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ملک مل کر پاکستان میں تیل کے وسیع ذخائر کو ترقی دیں گے، کون جانتا ہے شاید وہ ایک دن بھارت کو تیل فروخت کر رہے ہوں۔
امریکی صدر کے اس بولڈ بیان نے بھارت سمیت پوری دنیا میں ہلچل مچارکھی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکہ ، بھارت تعلقات میں بگاڑ سے خطے کی صورت حال میں تیزی سے تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ کل کے دوست آج کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست بن رہے ہیں _ یاد رہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے عہدہ صدارت کا حلف اٹھاتے ہی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ دنیا بھر سے تعلقات بہتر بنائیں گے۔ ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے لیے امریکا سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے۔ شاید کوئی برس ایسا گزرا ہو جب پاکستان کی برآمدات امریکا کے لیے بہت زیادہ ہو اور پاکستان کے لیے امریکی درآمدات کی مالیت ہمیشہ کم ہی رہی ہے۔
ہم ہر سال امریکا سے تجارت کرتے ہوئے توازن کو اپنے حق میں رکھتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری بھی ہوتی رہی ہے۔ پاکستان نے نائن الیون کے بعد اپنا بہت کچھ ضایع کیا۔ ہزاروں جانیں گئیں، اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا۔ امریکا سے ہمارے تعلقات کو اونچ نیچ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن باہمی تجارتی تعلقات ہمارے حق میں ہی رہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کے لیے امریکا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بنا رہا۔ امریکا کے لیے ہماری برآمدات میں سالانہ اوسط اضافے کی بات کی جائے تو دس، گیارہ، بارہ فی صد تک رہی ہے۔ امریکا دنیا بھر سے تعلقات کو کس طرح سے بہتر بناتا ہے یہ اس کا معاملہ ہے لیکن ہم اپنی سیاسی و تجارتی شراکت داری کو کس طرح زیادہ بہتر بنا سکتے ہیں یہ دونوں ممالک کا مشترکہ معاملہ ہے۔
2023 سے اب ہم 2024 اور مالی سال 2025 کے نصف گزارنے کے بعد بھی اسی نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ امریکا کے لیے ہماری برآمدات 5 ارب ڈالر سے بڑھتے بڑھتے اب 7 ارب ڈالر تک کا سفر طے کرنے والے ہیں لیکن نئے امریکی صدرکی آمد کے بعد اپنی برآمدات کو 10 ارب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں۔ یہ موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم، پاکستان کے وہ تاجر جو امریکا سے بہترین تجارتی تعلقات رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ہماری برآمدات کی لاگت جوکہ گزشتہ دو دہائی سے اونچی اڑان کی زد میں آچکی ہے۔
امریکا کے لیے ہم اپنی برآمدات کا جائزہ لیں تو مالی سال 2024 کے جولائی تا جون 2024 تک پاکستان کی کل برآمدات میں امریکا کا حصہ 17.25 فی صد تھا اور اس سے گزشتہ مالی سال میں یہ حصہ 18.67 فی صد تھا۔ اب رقم کی بات کر لیتے ہیں تو جولائی تا جون 2023 تک پاکستان نے امریکا کو 12 کھرب 80 ارب ساڑھے 65 کروڑ روپے کی برآمدات کی تھیں اور اس سے اگلے برس جولائی تا جون 2024 کے دوران 14 کھرب 96 ارب ساڑھے 34 کروڑ روپے کی برآمدات رہی۔ اب دیکھتے ہیں کہ تجارت میں ہم کتنے فائدے میں رہے ہیں تو بات یہ ہے کہ جولائی تا جون 2023 کی بات ہے جب کل امپورٹ میں امریکا کا حصہ 3.97 فی صد تھا اور 5 کھرب 34 ارب 25 کروڑ روپے کی درآمدات اور گزشتہ مالی سال جولائی تا جون 2024 کے دوران پاکستان کی کل امپورٹ میں امریکا کا شیئر 2.62 فی صد تھا اور 4 کھرب 4 ارب

Comments (0)
Add Comment