کشمیر کا زخمی دل: مرہم کون رکھے؟

از قلم: شبانہ ایاز shabanaayazpak@gmail.com

کشمیر، جو کبھی جنت نظیر کہلاتا تھا، آج خون، آنسوؤں اور تنازعات کی دلدل میں ڈوبا ہوا ہے۔ 5 اگست 2025 کو، یہ خطہ ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا مرکز بنا، پہلگام حملے (22 اپریل 2025) کے زخم، مئی 2025 کے فوجی تصادم کی تباہی، اور جاری سفارتی تناؤ نے کشمیر کے دل کو چھلنی کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس زخمی دل پر مرہم کون رکھے گا؟ کیا پاکستان، بھارت، چین، روس، یا عالمی برادری اس درد کو سمجھ کر کوئی حل پیش کر سکے گی؟؟؟؟

5 اگست 2025 کو کشمیر کے تناظر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس تاریخ کی اہمیت خاص طور پر 5 اگست 2019 سے جڑی ہے، جب بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کیا تھا، جس سے خطے میں تناؤ میں اضافہ ہوا۔ حالیہ پیش رفت، خاص طور پر اپریل 2025 میں پہلگام حملے کے بعد، جہاں 26 سیاح ہلاک ہوئے، نے دونوں ممالک کے درمیان فوجی تصادم کو جنم دیا جو 6 سے 10 مئی 2025 تک جاری رہا۔ اس کے نتیجے میں دونوں اطراف سے شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں، اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا۔
پہلگام حملہ (22 اپریل 2025): بھارتی زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں دہشت گرد حملے میں 26 افراد، جن میں زیادہ تر ہندو سیاح تھے، ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیموں پر عائد کیا، جبکہ پاکستان نے اس سے انکار کیا اور بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کی۔ دی ریزسٹنس فرنٹ (TRF) نے ابتدائی طور پر ذمہ داری قبول کی لیکن بعد میں اس سے پیچھے ہٹ گیا۔
7 مئی 2025 کو بھارت نے آپریشن سندور کے تحت پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نو اہداف پر میزائل حملے کیے۔ پاکستان نے جوابی کارروائی کی، جس میں جموں کے پونچھ میں 16 شہری اور متعدد فوجی ہلاک ہوئے۔ 10 مئی کو دونوں ممالک نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔
بھارت نے واہگہ سرحد بند کر دی اور انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کرنے کا اعلان کیا، جبکہ پاکستان نے بھی تجارت روک دی اور شملہ معاہدے کی معطلی کی دھمکی دی۔
ایکس پر پوسٹس کے مطابق، 5 اگست 2025 کو کشمیر میں غیر معمولی فضائی سرگرمی اور جموں کے لیے ریاستی حیثیت کے بارے میں افواہوں نے تناؤ کو مزید بڑھایا ہے۔ تاہم، یہ معلومات تصدیق شدہ نہیں ہیں۔
پاکستان اور بھارت جن خطرات سے دو چار ہیں اس میں
جوہری تناؤ سر فہرست ہے۔ دونوں ممالک کے جوہری ہتھیاروں کی موجودگی تنازع کو عالمی سطح پر خطرناک بناتی ہے۔ مئی 2025 کے تصادم نے اس خطرے کو اجاگر کیا، کیونکہ دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے علاقوں میں گہرے حملے کیے۔بھارت نے اس کشیدگی میں خوب ہزیمت اٹھائی۔
چونکہ علاقائی عدم استحکام کی بنیادی وجہ کشمیر تنازع ہے جو کہ خطے میں عدم استحکام کا باعث ہے، جس سے چین جیسے دیگر کھلاڑی بھی متاثر ہوتے ہیں،
گزشتہ کئی برسوں سے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں انڈین فوج کی موجودگی اور لاک ڈاؤن نے انسانی حقوق کے خدشات کو جنم دیا ہے،

جنگ بندی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے امکانات روشن ہیں، لیکن بھارت دوطرفہ مذاکرات کو ترجیح دیتا ہے، جبکہ پاکستان بین الاقوامی ثالثی کا حامی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی جیسے معاہدوں کی بحالی اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششیں تناؤ کو کم کر سکتی ہیں۔
کشمیر تنازع کا دیرپا حل کشمیریوں کے حق خودارادیت پر منحصر ہے، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حصہ ہے لیکن اب تک عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔
کشمیر تنازع ایک پیچیدہ علاقائی اور عالمی چیلنج ہے، جس میں چین اور روس کے کردار اہم ہیں۔ چین پاکستان کا اتحادی ہے اور اپنے معاشی اور جغرافیائی مفادات کے تحفظ کے لیے فعال ہے، جبکہ روس غیر جانبدار رہتے ہوئے دونوں فریقوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتا ہے۔
پہلگام حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فوجی تصادم نے خطے میں امن کے امکانات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔
2025 کی اس کشیدگی نے جوہری جنگ، علاقائی عدم استحکام، اور انسانی حقوق کے خطرات کو اجاگر کیا ہے۔ پائیدار امن کے لیے کشمیری عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات اور سفارت کاری دونوں ضروری ہے۔ عالمی برادری، خاص طور پر چین اور روس، کو اس تنازع کے حل کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ خطے اور عالمی امن کو لاحق خطرات کو کم کیا جا سکے۔
عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ دونوں ممالک پر دباؤ ڈالے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے ایک پائیدار حل تلاش کریں، جو کشمیری عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھے۔ بصورت دیگر، یہ تنازع خطے اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment