کیکٹس کا پھول۔۔۔شاہدہ شبنم

تحریر: ڈاکٹر عابدہ بتول
اظہار ذات کے کئی طریقے ہیں مگر شاعری ایساوسیلہ اظہار ہے جس کے ذریعے شاعر کی شخصیت کے مخفی پہلو عیاں ہوتے ہیں۔ جب کوئی لمحہ دل و دماغ کو حرکت میں لاتا ہے تو اہل سخن اس کا اظہار قلم سے کرتے ہیں۔ شاہدہ شبنم نے اپنے مجموعہ کلام ” میرا شہر پھر سے اداس ہے” میں اپنی واردات قلبی کا اظہار کیا ہے۔ زندگی کی تلخیاں نا آسودگیاں اور احساسات و جذبات سے بھر پور سچے اور کھرے انداز میں ذاتی واردات اور اجتماعی عصری ماحول کے تجربات کو جس خوب صورتی سے شعری قالب میں ڈھالا ہے وہ ان کے فنِ شعر سے بخوبی آشنا ہونے کی دلیل ہے۔ یہ نئے لےجی کی شاعرہ جدید شاعری ایک میں خوبصورت اضافہ ہے۔یوں تونظم اور غزل کی ہیئت جدا سہی مگر دونوں ہی شاعر کے خون جگر سے اپنا وجود اخذ کرتے ہیں۔ دونوں کا رنگ الگ سہی مگر آہنگ جدا نہیں۔ ان کی نظمیں جہاں اپنی ذات کا اظہار اور کتھارسس کرتی دکھائی دیتی ہیں وہیں اس نے ماضی کی جس بازگشت کو سنا اسے نہایت خوب صورتی سے چھوٹی اور بڑی بحروں میں پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں طرز تخاطب پایا جاتا ہے۔”میرا شہر پھر سے اداس ہے” میں شاعرہ کبھی واہموں میں گھری دکھائی دیتی ہیں، تو کہیں پر عزم۔ نہ صرف یہ بلکہ جدید حالات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اپنی نظموں میں فکر کی چاندنی، احساس کی تازگی، زبان کی ندرت کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرتے ہوئے اپنے عہد کے مسائل کو شعور کی کھلی آنکھ سے دیکھا، پر کھا اور پھر انھیں صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے ۔ سماجی حالات، احساسات، خیالات کو شعری آھنگ میں نہایت خوب صورتی اور دلکشی کے ساتھ پیش کیا ہے۔شاہدہ شبنم درد دل رکھنے والی وہ شاعرہ ہے جس نے نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے اندر کی شاعرہ کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ معاشرے کی دیگر خواتین کی بھی ترجمان بنی۔ ایک عورت ہونے کے ناطے شاہدہ شبنم نے جو عورت کے دل کی آواز کو سناتو کچھ یوں کہنے پر مجبور ہو گئیں۔
یہ محبتوں کے لباس میں
جو حقیقتوں کے عذاب ہیں
میری آنکھ سے تیری آنکھ تک
جو سراب ہیں
یہ میں جانتی ہوں فریبِ خانہ خراب
مگر آہ!جذبہ دل کہ اب
یہی نیند ہیں یہی خواب ہیں
باقی نظمیں پڑھ کر قاری خود اس بات سے اتفاق کرے گا کہ عورت کی جس تڑپ کو ایک عورت نے سمجھا شاید دوسرے اس طرح اسے محسوس نہ کر سکیں۔شاہدہ شبنم کے کلام میں شاعری کے وہ تمام اوصاف موجود ہیں جو کسی اچھے شاعر کے کلام میں ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں حیات و کائنات کے تلخ حقائق کی صدائے بازگشت بار بار اپنی طرف توجہ دلاتی ہے۔ ان کی نظمیں اس لیےمنفرد ہیں کہ ہجر و وصال اور عشق و محبت کے روایتی قصے تو ہماری بہت سی نوجوان شاعرات نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیے ہیں۔ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ زندگی کے اس حصے میں جہاں عہد شباب اپنی پوری تا بنا کی سے ٹھاٹھیں مار رہا ہو اور اس کی نظر عصری مسائل پر بھی گہری ہو۔ ورنہ محبت کی وادی میں قدم رکھ کر یاتو ہجر کا رونا، رونا پڑتا ہے یا وصال کی خوشیاں منانے سے فرصت نہیں ملتی۔ مگر شاہدہ شبنم نے اسے بھی بڑے سلجھے ہوئے انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ وہ اندر کی عورت پر بڑی گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔جس نے اس کی شاعری میں ایک حسن اور ایک رکھ رکھا¶ پیدا کر دیا ہے۔ شعری استعارے ان کے ہاں ایک نئے اسلوب کا پتہ دیتے ہیں۔ وہ الفاظ کو احتیاط سے برتنے کا فن بھی جانتی ہے،جس سے خیال لفظوں میں گم ہونے کے بجائے مزید نکھر کر سامنے آئے ہیں۔ وہ غم جاناں اور غم دوراں کی سختیوں کی بدولت زندگی اور اس کے مسائل،ذات کا کرب اور کائنات کے کرب کی روح فرسا تصویر میں فنی و فکری مہارت اور نہایت ہنر مندی سے خوب صورت مصرعوں کی لڑیوں میں پروتی نظر آتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہدہ شبنم صرف موضوع محبت کے گرد ہی نہیں گھومتی بلکہ اس کی سوچ کا کینوس بہت وسیع ہے اس نے زندگی کے ہر رنگ کو دیکھا اور پرکھا ہے اور لوگوں کا دکھ اپنےدامن میں سمیٹے ہوئے نظر آتی ہیں۔ جو ان کی فکری گہرائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔”میرا شہر پھر سے اداس ہے ”کی شاعرہ شاہدہ شبنم کا تعلق پنجاب کے ضلع منڈی بہاالدین کے ایک قصبے ملکوال سے ہے۔روائتی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ پنجاب کی بیشتر خواتین کی طرح اپنی گھریلو ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہیں۔ شاعری ان کے لیے کوئی اکتسابی چیز نہیں بلکہ اس لالے کی حنا بندی فطرت نے خود بخود کی ہے۔ کالج کے زمانے سے ہی ان کی نظمیں ادب کے سنجیدہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگی تھیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے موضوعات وسیع ہوتے چلے گئے اور ان کی نظم پنجاب کی تہذیبی زندگی میں عورت کے کردار کا استعارہ بن گئی۔ شاہدہ شبنم ہمارے معاشرے کی اجتماعی نفسیات کی ترجمان ہے۔ خاص طور پر انھوں نے عورت کی بے بسی اور معاشرتی سطح پر اس کے محدود کردار کو موضوع بنایا ہے۔ ان کی شاعری درحقیقت ایک چبھتا ہوا سوال ہے جو ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔یہ سوال کبھی معاشرے کے سامنے رکھا جاتا ہے اور کبھی خالق کائنات کے سامنے۔ لیکن یہ سوال ابھی تک تشنہ ہے۔ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ شاہدہ شبنم بلاشبہ نئے دور میں ایک چونکا دینے والی آواز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہدہ شبنم مجھے دیگر شاعرات کے تناظر میں حساسیت کے شعوری منصب پر درخوشاں نظر آتی ہے۔کیوں کہ شاہدہ نے عورت کے جذبات میں چھپے کرب کی عکاسی منفرد انداز میں کی ہے۔اور کرب میں لپٹی ہوئی انسانی خواہشات کی تڑپیتی لاشوں کو شاعری کا کفن پہنایا ہے۔عورت کےجس کرب کو شاہدہ شبنم نے محسوس کیا ہے اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو۔نظم عنوان سمیت پیشِ خدمت ہے۔
کرب
محبت سوچنا اور مٹھیوں میں خواب بھر لینا
بہت آسان ہوتا ہے
مگر شبنم!
کسی تعبیر کو مٹھی میں لے کر چھوڑ دینا
اور محبت جھیلنا
آساں نہیں ہوتا
یہ اور اس طرح کی متعدد نظمیں محبت کے لطیف جذبات کو پیش کرتے کرتے اچانک معاشرے کے جس کرب اور درد کا پتہ دیتی ہے وہ عشق و محبت کی عام روائیتی شاعری سے بہت آگے کی باتیں ہیں۔وہ ذات کے دکھ سے نکل کر سماج کے دکھ کو جب محسوس کرتی ہے تو معاشرے میں پھیلا غریب سماج کا دکھ بے اختیار اس کی زبان سے کچھ یوں ادا ہوتا دکھائی دیتا ہے:
اپنے حالات سے سہمے ہوئے بوجھل چہرے
اپنی غربت کے تصور سے ہراساں آنکھیں
جن کے قدموں پہ پڑی گرد کی میلی چادر
ایک بے فیض مشقت کا پتہ دیتی ہے
جن کے بچے کسی امید کا دامن تھامے
اپنی دہلیز پہ روتے ہوئےسو جاتے ہیں
تم نے محسوس کیا ہو تو بتاوں تم کو
کس طرح زرد ہتھیلی پہ دعائیں گنتے
عمر بہتے ہوئے لمحات میں ڈھل جاتی ہے
” میرا شہر پھر سے اداس ہے”شاعری اوربالخصوص مشرقی لڑکی کے عنوان سے عطااللہ عطا کی تحریر اس بات کی گواہی ہے کہ شاہدہ شبنم نے آمد کی شاعری کی ہے اور آمد ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتی۔جس طرح شعروادب کی محفلوں سے دور گھر کی چاردیواری میں چپ چاپ خدا کی مخلوق کوتخلیق کرنے کے لیے خدا کا ساتھ دیتی ایک لڑکی اچانک شاعری بھی تخلیق کرنے لگ جائے تو سر سید احمد خان کا وہ جملہ بے ساختہ یاد آ جاتا ہے کہ ”پانی خود اپنی پنسال میں آ جاتا ہے”۔کیوں کہ ہر طرح کا شعری ماحول میسر آنے سے زیادہ اندر کے تخلیق کار کا باہر آنا اس بات کی دلیل ہے کہ سچے اور کھرے جذبے اندر ہی اندر مار دینے کے بجائے انھیں قرطاس کی زینت بنا دینا بھی ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ شاہدہ کی شعوری پرورش اس خطے کے تاریخی اور ثقافتی دلیری اور بغاوت کے اس ماحول میں جنم لیتی ہے جو پورس کی صورت میں سکندرِ اعظم کے بڑھتے ہوئے قدموں کو اپنے شعور کی دیلزوں پر روک کر احساسات و محسوسات اور احترام و تقدیم کے دائروں میں گردش کرنے کے باوجود اپنی مٹی،اپنے تصورات اور جذبوں کی ہنگامہ آرائی کا دامن تھامے رہتا ہے۔ہوائیں ہم کلام ہوتی ہیں تو یہ سرشاری شاہدہ شبنم کو یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ:
ہوا کا نرم جھونکا
چھو کے دھیرے سے گزرتا ہے
تو لگتا ہے
کہیں تم مسکرائے ہو
کچھ لوگ،کچھ لمحے،کچھ کام،کچھ منظر انسان میں تمام عمر ٹھہر جاتے ہیں اور وہ بظاہر سب کچھ ہوتے ہوئے بھی خود کو ادھورا محسوس کرتا ہے اور اپنی تکمیل کی خواہش ہمیشہ دل میں بسائے رکھتا ہے۔کبھی انسان زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر معاشرتی،تہذیبی جکڑ بندیاں اسے مقید کر لیتی ہیں اور وہ ادھورا ہی رہتا ہے۔”ادھوری نظم ” میں بھی شاعرہ نے کچھ ایسے ہی ادھورے پن کا اظہار کیا ہے:
کبھی شبنم
ادھوری نظم کا عنوان لکھو تو
یہی لکھنا
کہ میں اب بھی ادھوری ہوں
ایک اور نظم ”کبھی تو ایسا۔۔۔۔” میں اچھے دنوں کی خواہش لیے کچھ یوں گویاں ہوتی ہیں:
کبھی تو ایسا ساون آئے
دکھ کی آگ میں جلتے تن من
سکھ پا جائیں
میرے ساجن مجھے اداسی کے جنگل میں
گرر لے جائیں
بوند گرے تو دریا ناچے
من آنگن میں برکھا ناچے
میں شاہدہ شبنم کو اس خوبصورت شعری مجموعے پر مبارک باد پیش کرتی ہوں اور دعا گو ہوں کی وہ سدا شاد و آباد رہے اور اسی طرح خوبصورت جذبوں کو لفظوں کا جامہ پہناتی رہے۔

Comments (0)
Add Comment