تحریر: شفقت حسین
پنجاب اسمبلی میں پیش ہونے والی ممبران اسمبلی کی تحریکِ استحقاق ہو یا تحریکِ التوا، توجہ دلاؤ نوٹس ہو یا سپیکر کی رولنگ، صحافیوں کے لئے قائم کی گئی پریس گیلری میں اپنے اپنے ادارے کے لئے کارروائی رپورٹ کرنے پر مامور ہر صحافی بڑے گہرے انہماک، پوری دلچسپی، مکمل توجہ اور بھرپور یکسوئی کے ساتھ سن رہا ہوتا ہے۔ معمولی سے معمولی غفلت بھی ان صحافیوں کے لئے کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے اور کسی صحافی کی ساکھ کو بھی تباہ و برباد کر سکتی ہے اور جب معاملہ قلم کے مزدوروں کو کسی آہنی شکنجے میں کسنے بلکہ ان کی مُشکیں کسنے کا ہو تو اوپر بیان کردہ انہماک، توجہ، دلچسپی اور یکسوئی قدرے مزید گہری ہو جاتی ہے۔ قارئین کرام! اِدھر کچھ روز سے صحافی اور عوام یہ سن رہے تھے کہ حکومتِ پنجاب صحافیوں کے خلاف ہتکِ عزت کے بل کو پیش کرنے اور اسمبلی میں کسی نہ کسی حوالے سے عددی اکثریت کے ذریعے بغیر کسی بحث مباحثے کے اِس بل سے متعلقہ سٹیک ہولڈرزاور اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لئے بغیر بالخصوص اہلِ صحافت سے بھی باہمی مشاورت کے عمل کو پسِ پشت ڈال کر اور ان کی پیش کی جانے والی کسی بھی تجویز کو پرے کاہ کے برابر اہمیت دئیے بغیر انتہائی عجلت میں منظور کرانے پر تُل چکی ہے۔ اس حوالے سے صحافیوں کا موقف بڑا وزنی اور محکم اور صائب تھا کہ صحافتی ضابطۂ اخلاق اور پہلے سے بنائے گئے قوانین کی موجودگی کسی ایسے بل کی منظوری حاصل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی جو اپنی معنوی اہمیت کے اعتبار سے مستقبل میں ایک ظالمانہ کالا قانون کے ہم معنی قانون تصور کیا جائے گا۔ صحافیوں کی پاکستان میں تمام چھوٹی بڑی تنظیموں نے اپنے بعض تحفظات سے بھی خود کو ایک جمہوری کہلانے والے جمہوریت پسند سپیکر کو آگاہ کیا۔ واضح رہے کہ جناب اسپیکر نے خود کو جمہوری رہنما یا جمہوری سیاستدان ہونا اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے کہا تھا۔ بلاشبہ ملک محمد احمد خان سپیکر پنجاب اسمبلی ایک اچھی شہرت اور نیک سیرت کے حامل سیاستدان ہیں ان کا ٹریک ریکارڈ بھی ایک مکمل طور پر جمہوری سیاستدان کا ہے۔ ہمیں اُن کے حُسنِ ظن کا بھی ادراک ہے جو صحافیوں کے بارے میں وہ اپنے نہاں خانۂ دل میں رکھتے ہیں لیکن لوہے پہ لکیر اور سامنے ایستادہ دیوار پر یہی لکھا ہوا ہے کہ اس تمام تر جمہوریت پسندی، صحافیوں سے دوستی اور معتدل سیاست کے دعوے کے باوجود وہ اول و آخر ایک سیاسی جماعت کی نظرِ التفات کے نتیجے میں ماضی میں پنجاب حکومت کے ترجمان اور آج اسی کے بنائے گئے سپیکر ہیں جس جماعت کا نام پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے جس کے جی میں جو آئے وہ کر گزرتی ہے اور سوموار کی رات بھی پونے دس بجے یہی کچھ ہوا کہ پہلے تین گھنٹے وزیرِ اطلاعات اور جناب سپیکر سے صحافتی تنظیمیں اور سی پی این ای وغیرہ سر جوڑ کر بیٹھے رہے رات نو بجے کے قریب چار وزراء کرام بلال یٰسین ، سردار شیر علی گورچانی اور ذیشان رفیق اور عاشق کرمانی صحافیوں کو پریس گیلری کا بائیکاٹ ختم کرنے پر آمادہ کرتے رہے لیکن اُدھر حکومت صحافیوں کو چکمہ دیتی رہی اور وقت حاصل کرتی لیکن صحافیوں کے قائد ارشد انصاری، کاظم خان، طاہر نواز، قمر بھٹی اور دیگر صحافیوں کا موقف تھا کہ عجلت میں منظور کئے گئے بل کے consequencesبڑے خوفناک ہو سکتے ہیں آپ اس بل کو ہفتہ عشرہ کے لئے مؤخر کردیں تاکہ باہمی مشاورت سے کوئی درمیانی راستہ نکالا جا سکے۔ بلال یٰسین ارشد انصاری کو قائل کرتے رہے اور اپنے اور ارشد انصاری کے خاندان کے سال ہا سال پر محیط تعلقات کا ذکر کرتے رہے لیکن شاید ان چاروں نوجوان وزرا کو اس امر کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ ارشد انصاری جس بات پر ڈٹ جائے اس پر پہرہ دیتا ہے یہی کیفیت کاظم خان، طاہر نواز اور قمر بھٹی کی ہے لیکن قارئین کرام! یہ ایک بڑی تلخ حقیقت ہے کہ زمانہ ماضی ہو یا حال سمجھ نہیں آتی کہ حکمرانوں کو کون سی غیر مرئی قوتیں ہیں جواُلٹے سیدھے مشورے دیتی ہیں۔ ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی صحافیوں کو دو ٹکے کا صحافی قرار دیتے ہوئے ذرا نہ سوچا کہ آپ کو وزارتِ عظمیٰ پر بٹھانے میں کچھ نہ کچھ کردار ان دو ٹکے کے صحافیوں کا بھی ہے۔ محترمہ نے ایک وقت یہاں تک کہہ دیا تھا کہ سارے اخبارات بند کر دینے چاہئیں جبکہ میاں محمد نواز شریف تو اخبارات اور اہلِ صحافت کو بالکل دیوار کے ساتھ لگانے میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ امریکی سفیر ولیم بی مائیلم تک کو صحافیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لئے احتجاج میں شریک ہونا پڑا۔ اس وقت ایک بات بڑی مشہور ہوئی کہ بی بی سنتی نہیں اور بابو سمجھتا نہیں بہرکیف سابق وزیراعظم عمران خان بھی صحافیوں کا گلا دبانے میں کسی جمہوری حکمران سے ہر گزہرگز پیچھے نہیں رہے بلکہ شاید دو چار قدم آگے ہی گئے ہوں۔ واضح رہے کہ میں یہاں آمریتوں کی صحافت دشمنی کا تذکرہ نہیں کر رہا خود کو جمہوریت کے چیمپیئن تصور کرنے والوں کی بات کر رہا ہوں۔ اگر صحافیوں نے مارشل لاؤں میں قید اور کوڑے برداشت کئے جیلیں کاٹیں تو جمہوری حکمرانوں کے ادوار میں بھی لاہور شاہی قلعے میں صعوبتیں جھیلیں کیونکہ حکمران ہمیشہ تعصب کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔ اپنی شان میں گستاخی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ میرے استادِ مکرم جناب ارشاد احمد حقانی اپنی ابتدائی صحافت کے زمانے کا واقعہ اکثر سناتے تھے کہ کس طرح حکمران اپنے خلاف لکھنے والوں کو ان کی گستاخی کا مزہ چکھاتے ہیں وہ کہتے کہ ایک اخبار کے ایڈیٹر حکومت کے خلاف ذرا تیز جارہے تھے کہ انہیں پیغام ملا کہ ذرا ہتھ ہولا رکھیں لیکن وہ حقائق بیان کرتے رہے۔ دو تین مرتبہ سمجھانے کے بعد حکومت کا آخری حربہ ایسا کارگر ثابت ہوا کہ وہ ایڈیٹر اپنا اخبار بالکل بند کر کے کنارہ کش ہو گئے۔ اور وہ آخری پیغام یہ تھا کہ آپ بے شک باز نہ آئیں لیکن شراب کی بوتل بھی موجود ہے اور ایک فاحشہ عورت بھی دور نہیں اور وہ ڈاکٹر جس نے شراب پینے کی تصدیق کا سرٹیفکیٹ اور عورت کے ساتھ غیر اخلاقی حرکت کا نتیجہ دینا ہے وہ بھی بالکل قریب کے ہسپتال میں موجود ہے اب بتائیں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ یہ پیغام اس صحافی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ انہوں نے بوری بستر لپیٹا آج تک ان کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں کہ بعد میں ان کا یا ان کے خاندان کا کیا بنا۔ انہیں نان و نفقہ ملتا رہا یا کسمپرسی کے عالم میں ان کی زندگیاں بسر ہوئیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ صحافی بیچارے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ممتاز صحافی اور دانشور حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا کئی صحافی اندھی اور نامعلوم گولی کا نشانہ بن گئے۔ ارشد شریف دیارِ غیر میں مارا گیا عمران ریاض کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا اور بھی کئی صحافی وقتاَ فوقتاَ لقمۂ اجل بنا دئیے گئے۔ آگے بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے لیکن حکمران ڈریں اس وقت سے جب انہیں اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھنا ہے اور آج صحافیوں کے ساتھ اس کالے قانون کے خلاف اظہارِ یکجہتی کرنے والی اپوزیشن کو بھی بڑا گہرا غور اور سوچ بچار کرنا ہوگا کہ کل کلاں وقت نے ان کے حق میں کروٹ لی تو انہیں آمر اور ڈکٹیٹر نہیں بلکہ خود کو اسی طرح جمہوری راہنما ثابت کرنا ہوگا جس طرح وہ آج ہیں۔ آج تو وہ حالات کے جبر کے تحت صحافیوں کے شانہ بشانہ ہے لیکن اقتدار میں آکر پتا چلے گا کہ آج ہمارے دوست کل ہمارے دشمن بن کر ہتکِ عزت کا کوئی نیا قانون تو نہیں لائیں گے۔ یہی غور محترمہ مریم نواز شریف کو بھی بطور وزیرِاعلیٰ کرنا چاہیے کہ انہیں صحافیوں کا احسان مند ہونا چاہیے یا دشمن ۔ کیونکہ پہلے سے بنائے ہوئے قوانین اور صحافتی ضابطۂ اخلاق کی موجودگی میں کسی اور قانون کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہرگز نہیں ۔ کیونکہ کوئی بھی صحافی اس قدر غیر ذمہ دار نہیں ہوتا کہ خود اپنے ہاتھوں طوقِ رسوائی اپنی گردن میں ڈالے۔ اگرچہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رانا آفتاب، سردار محمد علی آف فتح جنگ اٹک، میاں امجد علی جاوید، فرحت عباس، حاجی اسماعیل سیلا جیسی ہوشمندی کی آوازیں موجود ہیں لیکن کوئی سن نہیں رہا۔نہ صحافیوں کی نہ اپوزیشن کی۔ خدا تعالیٰ خیر کرے۔