زندگی کی گاڑی اور ریل گاڑی

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

پٹڑی مضبوط ہو تو ریل گاڑی کو رب دیاں رکھاں ہوتی ہیں اور یہ سپیڈوسپیڈ اپنی منزل کی طرف جارہی ہوتی ہے۔ ویسے تو کائنات کی ہر چیز منزل کی تلاش میں ہے اور اگر راستہ ہموار اور صاف ہو۔ زاد راہ بھی ہو اور یکسوئی بھی ہو تو منزل پر پہنچنے سے کسی کو نہیں روکا جا سکتا ہے۔ انسان کو اگر اس بات کا شعوری احساس ہو جائے تو اس پر بے شک شیطان آگے پیچھے دائیں بائیں سے بھی حملے کرے تو اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ہے۔ اہل عقل ودانش نے ہمیشہ کائنات ارض وسماء کی چیزوں کو اپنی تحریر وتقریر میں استعمال کر کے لوگوں کی سوچ اور فکر کی گرہیں کھولی ہیں۔ پیر سید غلام محی الدین المعروف بابو جی پیر صاحب گولڑہ شریف کو ریلوے انجن سے بڑا لگاو تھا اور کسی کے اس بات کی وجہ دریافت کرنے پر انہوں نے فرمایا تھا کہ ریلوے انجن خود جلتا ہے اور دوسروں کو سکون پہنچاتا ہے۔ صراط مستقیم پر چلتا ہے اور وفاشعار ہے جتنے بھی اس کے ساتھ ڈبے لگا دیئے جائیں سب کو لے کر منزل پر پہنچ جاتاہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گفتہ آید در حدیث دیگراں۔ مذکورہ قول سے یہ بات عیاں ہے کہ بات غور کرنے کی ہے۔ ریل گاڑی پر غور کرنے سے انسان اسلام کی تعلیمات کے فلسفے سے پوری طرح آگاہ ہو جاتا ہے۔ شاید اسی لئے قرآن مجید میں بار بار ہمیں دعوت غور وفکر دی گئی ہے لیکن ہم تو دعوت پر کھانا پینا اور عیش کرنا چاہتے ہیں اور پھر طیش میں آکر اپنے علاوہ سب کو نیچا دکھانے کے خواب دن کے بارہ بجے دیکھتے ہیں۔ ویسے ہماری زندگی کے بارہ بج چکے ہیں اور ہماری آنکھیں چندھیا چکی ہیں اور ہماری مت پوری طرح ماری جا چکی ہے اور ہم سب ایک دوسرے کا حق مارنے کے لئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں اور زندگی کی گاڑی کا سفر رواں دواں ہے۔ کاش ہم بروقت ریلوے سٹیشن پر پہنچ جاتے۔ ٹکٹ خریدتے اور گاڑی آنے پر اس میں سوار ہو کر اپنی منزل پر پہنچ جاتے۔ گاڑی چھوٹ چکی ہے اور ہم سب مسافروں میں پھوٹ پڑ چکی ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ اور ہم میں کوئی بھی عالم باعمل نہیں ہے۔
پہلی دفعہ ریل گاڑی 1801ء میں بنی تھی اور اس گاڑی کو گھوڑوں سے کھینچا جاتا تھا۔ پھر سائنسدانوں کو بھاپ کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور پہلی دفعہ جیمز واٹ نے انگلینڈ میں ایک پٹڑی بچھائی اور ایک انجن کو بھاپ کی مدد سے اس پٹڑی پر 5میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلایا۔ لیکن پٹڑی اتنی کمزور تھی کہ اکثر ٹرین پٹڑی سے اتر جاتی۔ تنگ آکر جیمز واٹ نے یہ کام چھوڑ دیا۔ 1814 میں جارج اسٹیفن نے ریلوے انجن کو دوبارہ بنایا اور ایک نئی پٹڑی بھی بچھائی اور 25 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹرین کو چلا دیا اور 1830 میں ریلوے ڈیپارٹمنٹ کا باقاعدہ افتتاح ہو گیا۔پھر ڈیزل اور بجلی پر انجن کو چلایا گیا۔ بظاہر یہ گاڑی کا پہیہ تھا اور اس سےعملی طور پر زندگی کا پہیہ چلنا شروع ہو گیا۔ مشرق اور مغرب کے فاصلے سمٹ گئے۔ ریل گاڑی 5میل سے 25 میل اور پھر 45 میل فی گھنٹہ کی رفتار پر پہنچی اور آج اس کی رفتار انگلینڈ میں جا کر صحیح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ریل کے سفر کے آغاز کو دیکھ کر پیدل، گدھوں،گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر کرنے والوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ اور ان سب کو اپنی اپنی منزل نظر آنا شروع ہو گئی۔ یہ گاڑی برطانیہ سے ہوتی ہواتی ہوئی برصغیر پاک و ہند میں پہنچی پھر تو شہروں کو شہروں سے، ملکوں کو ملکوں سے اور سمندروں کو سمندروں سے ملادیا گیا۔ سفر اور تجارت آسان ہو گئی۔ گویا کہ زندگی آسان ہو گئی۔
میں نے بھی ریل گاڑی کے بڑے سفر کئے ہیں اور پاکستان ریلوے کے اتار چڑھاو دیکھے ہیں۔ وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ٹکٹ کے بغیر سفر کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ وقت پر ریلوے سٹیشن پہنچنا ضروری ہوتا تھا۔ جھنڈی ہلنے اور سیٹی بجنے کے ساتھ ہی ریلوے انجن اپنے سفر کا آغاز کردیتا تھا۔ کسی کے روکنے پر گاڑی کا رکنا ممکن نہ تھا تاہم زنجیر کھینچنے سے گاڑی کا پہیہ جام کیا جا سکتا تھا اور ایسی صورت میں آپ کو اپنی تکلیف ریلوے انتظامیہ پر ثابت کرنا پڑتی تھی گویا کہ یہ بھی زنجیر عدل ہی سمجھیں۔ کوئی قانون نافذ کرنے والے عامل کی حیثیت کو چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔ مجموعی طور پر ریلوے سٹیشن خوف کی علامت تھا لوگ ڈرتے تھے کہ ہلکی سی غلطی پر جرمانہ ہو جائیگا اور عدم ادائیگی کی صورت میں بندہ اندر جائیگا۔ اس وقت اندر اور باہر میں بڑا فرق تھا کیونکہ اندر جانے والوں سے نفرت کی جاتی تھی بلکہ ایسے افراد کے سارے خاندان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ویسے غربت بہت زیادہ تھی اور جہاں بھی غربت ہوتی ہے وہاں استحصال کا امکان ہوتا ہے۔ تاہم کلاس سسٹم اس نظام کا بھی حصہ تھا۔ فرسٹ سیکنڈ اور تھرڈ کلاس کے ڈبے تھے۔ متمول طبقہ تو فرسٹ کلاس میں ہی ہوتا تھا اور باقی طبقات سیکنڈ اور تھرڈ کلاس میں سفر کا مزہ لیتے تھے۔ ریلوے سٹیشن پر پورا شہر آباد ہوتا تھا۔ دال چنے والے، فروٹ والے، مشروبات بیچنے والے، رسالے اور کتابیں بیچنے والے بلکہ ہر قسم کے کاروباری لوگوں کے لئے تجارت کے حسین مواقع تھے۔ معیار اور نرخوں کی بحث تمحیص کے دروازے اس لئے بند ہوتے تھے کیونکہ گاہک کے پاس وقت نہیں تھا اور گاڑی وقت کی پابند تھی لہذا آنکھیں بند کرکے خریدوفروخت کریں اور چلتے بنیں۔ گاڑی کا اندر کا ماحول بھی بڑا خوبصورت ہوتا تھا۔ معتدل مزاج لوگوں کے آپس میں راہ ورسم قائم ہو جاتے تھے۔ کتاب کے رسیا دوران سفر پوری پوری کتاب پڑھ لیتے تھے۔ گفتار کے غازی اپنے ہمسفروں کو باتوں میں لگا لیتے تھے اور باتوں باتوں میں لوٹ لیتے تھے لوٹ کی مزید وضاحت قارئین پر چھوڑتا ہوں کیونکہ کوئی کام تو قارئین نے بھی کرنا ہے۔ لڑائی کا بھی امکان ہوتا تھا اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ شیطان اچانک نازل ہوکر رنگ میں بھنگ ڈال دیتا تھا۔ تاہم میں نے بھنگ پی کر نعرے مارنے والے مسافر نہیں دیکھے ہیں شاید اس وقت تک قانون کی گرفت مضبوط تھی اور نشہ پلا کر لوٹنے کی واردات بھی خال خال تھی۔ حضرت عشق بھی ٹرین میں ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا تھا اور کسی بھی ریلوے سٹیشن پر جدائی کی صورت میں دردوغم کے پہاڑ ٹوٹ سکتے تھے۔ ریلوے لائن جب بچھائی گئی ہے تو پہاڑوں کو کاٹ کر سرنگیں بھی بنائی گئی تھیں اور دن کے اجالے میں سرنگ آنے کی صورت میں گھپ ہنیرا اور اندھیروں میں اونچا بول کر اپنا اور دوسروں کا خوف دور کیا جا سکتا ہے۔ ویسے چپکے چپکے کچھ بھی کیا جا سکتا تھا۔ جیب خالی ہونے کی صورت میں ٹکٹ خریدنا ممکن نہ تھا اور ٹکٹ کلکٹر کے اچانک نمودار ہونے کی صورت میں واش روم میں پناہ لی جا سکتی تھی اور اگر مذکورہ افسر بضد ہی ہو جاتا تو مٹھی گرم کر کے جان چھڑائی جا سکتی تھی۔
ڈرائیور، گارڈ اور ٹی ٹی تین افسران سے لمبی چوڑی گاڑی کا انتظام و انصرام چلایا جاتا تھا۔ ریاست بھی موج میں اور شہری بھی موجیں کررہے تھے۔ پھر جمہور کا دور آیا بے روزگاری بڑھ گئی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ملک و قوم کے لئے بہت ہی ضروری ہو گیا۔ اندھا دھند بھرتیاں ووٹ پکے اور ورکرز کے خواب پورے ہو گئے۔ لیکن ریلوے ڈیپارٹمنٹ “تن پر بارہ” ہو گیا۔ پیسہ خزانہ سرکار میں جانے کی بجائے ذاتی جیبوں میں جانا شروع ہو گیا۔ تنخواہیں گھر بھجوائی جانے لگیں، جزا سزا کا نظام نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ وقت کی پابندی ختم اور ریلوے انجن جہاں چاہے وہاں رک جائے۔ کھٹارہ بسوں کو لگزری کوچوں میں تبدیل کردیا گیا اور ٹرالیوں کی جگہ بڑے بڑے کینٹینرز اور ٹینکروں نے لے لی اینکروں نے ویسے خاموشی سادھ لی اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مالکان ریلوے کی پالیسی میکنگ میں اپنا ان پٹ دینے لگے۔ ایسی صورتحال میں آوٹ پٹ صفر برابر صفر۔ بیچ کر جان چھڑاو۔ساری دنیا میں نجکاری کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں اور ملکی معیشت کو بڑا فائدہ ہوا ہے۔ نئے نئے بیانیے اور ایسے مثالی اداروں کی ناقابل بیان صورت حال۔ کون ہے جو آج اس ساری صورت حال کا از سر نو جائزہ لے کر اتنے بڑے ادارے کو دوبارہ کار آمد بنائے۔ جارج اسٹیفن کو تلاش کرتے ہیں اور اس کی خدمات مستعار لیتے ہیں۔ بقول وارث شاہ
بھلا موئے تے وچھڑے کدوں ملدے ایویں کملا لوک ولوندا اے

Comments (0)
Add Comment