قومی سلامتی کے امور پر افواہیں پھیلانے کی روایت کو دفن کرنیکی ضرورت
پاکستان نے عالمی امن اور انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے ہمیشہ ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے ۔دہشتگردی کے خاتمے کی خاطر اسکے اصولی موقف کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے اسکے ساتھ ساتھ پاکستان نے کبھی اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی اور نہ آئندہ ایسا کچھ ہوگا اس حوالے سے کچھ بلاتصدیق گفتگو سے معاملات اس نہج پر پہنچ گئے کہ وزارت خارجہ کو اسکی وضاحت کرنا پڑی ہے ۔اس تناظر میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا کو پاکستان کی جانب سے اڈے دینے کے قیاس آرائیوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے بیان کی تردید کردی ہے۔ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ امریکا کو پاکستان کی جانب سے اڈے دینے کے قیاس آرائیوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کسی بھی ملک یا حکومت کو اڈے دینے کا ارادہ نہیں، پاکستان اپنی سرزمین یا فضائی حدود کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ قیاس آرائیوں پر مبنی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ نگراں حکومت یا اس حکومت نے 2 فوجی اڈے امریکا کو دے دیے ہیں، ہم اس کی وضاحت چاہتے ہیں۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے عمر ایوب نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ واضح کرے کہ آیا یہ ایئربیس موجودہ حکومت نے امریکا کو دیے تھے یا سابق نگراں حکومت نے دیے تھے۔انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ کافی تشویشناک بات ہے اور حکومت کو ایوان میں وضاحت دینی چاہیے کہ (امریکہ کو) اڈے دینے کا فیصلہ کس نے کیا۔ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ بھارت بین القوامی سطح پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے، بھارت امریکا، کینیڈا اور پاکستان میں ماروائے عدالت ٹارگٹ کلنگز میں ملوث ہے، پاکستان کا مطالبہ ہے کہ وہ ان جرائم پر بھارت کا احتساب کریں۔انہوں نے بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں افغانستان ملوث رہا ہے، اس حوالے سے افغانستان کو ثبوت فراہم کیے گئے ہیں ، افغانستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے کارروائی کریں۔ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں امریکی وفد نے رواں ہفتے پاکستان کا دورہ کیا، پاکستان اور امریکی وفد نے تعلیم، ماحولیاتی تبدیلی سمیت دہشتگردی کی روک تھام پر تبادلہ خیال کیا۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں ، پاکستان اس تعلق کو انتہائی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔وزیر خارجہ اسحٰق ڈار او آئی سی اجلاس میں شرکت کے لیے گیمبیا میں ہیں ، اسحٰق ڈار کئی اہم رہنماؤں سے ملاقات کررہے ہیں۔نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار او ائی سی کے 15ویں اجلاس میں شرکت کرینگے، او آئی سی اجلاس میں وزیر خارجہ پاکستان کی نمائندگی کرینگے۔اجلاس میں پاکستان کی جانب سے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے حوالے سے أواز اٹھائی جائے گی۔اسکےعلاوہ اجلاس میں غزہ کی صورتحال کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کو بھی اجاگر کیا جائے گا۔ان حالات میں پاکستان کے بارے میں مختلف افواہیں پھیلانے کا مقصد اسکی ساکھ متاثر کرنا ہے ۔پاکستان نے اپنی خود مختاری اور سالمیت کے حوالے سے اصولی موقف پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف کسی کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیگا۔بلاتصدیق ملکی سلامتی کے معاملات پر بے تکی باتیں کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔قومی پالیسی کے بارے میں افواہیں پھیلانے کی روایت کو اب دفن کرنا ہوگا