سیلاب: ایک قدرتی حقیقت یا انتظامی غفلت؟

ایم فاروق انجم مسعد

پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی سال ایسا گزرا ہو جب سیلاب نے اپنی تباہ کاری نہ دکھائی ہو۔ کبھی سندھ ڈوب جاتا ہے، کبھی جنوبی پنجاب پانی میں غرق ہوتا ہے، کبھی خیبر پختونخوا کے دریا بپھر جاتے ہیں اور کبھی بلوچستان کی زمینیں سمندر بن جاتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض قدرتی آفات ہیں یا ہماری ناکامیوں کا نتیجہ؟
پاکستان جغرافیائی اعتبار سے ایک ایسا ملک ہے جہاں مون سون کی بارشیں ہر سال آتی ہیں۔ دریائے سندھ کا وسیع نظام، اس کے معاون دریا، اور شمالی پہاڑوں سے بہنے والا پانی ہمیشہ ہی زیادہ بارشوں کے بعد خطرہ بن جاتا ہے۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک میں یہی بارشیں اور دریا ان کے لیے طاقت کا ذریعہ ہیں، بجلی بناتے ہیں، زراعت کو سیراب کرتے ہیں اور ماحولیات کو توازن دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں یہی بارشیں بربادی، بھوک، بیماری اور پسماندگی کا باعث بن جاتی ہیں۔
پاکستان میں حکومتیں سیلاب کو روکنے کے لیے پیشگی اقدامات (حفظ ماتقدم) لینے کی بجائے عموماً اُس وقت جاگتی ہیں جب پانی گھروں کی چھتوں تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔ ہر سال NDMA (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی)، صوبائی حکومتیں اور ضلعی انتظامیہ ‘ہنگامی اجلاس’ بلاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس نہ تو خاطر خواہ منصوبہ بندی ہوتی ہے اور نہ ہی بجٹ کا صحیح استعمال۔ اکثر اوقات:
بند ٹوٹنے سے ہزاروں ایکڑ پر فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔
جانور جو غریب کی معیشت کا ستون ہوتے ہیں، پانی میں بہہ جاتے ہیں۔
انسان جان بچانے کے لیے درختوں، چھتوں یا کشتیوں کا سہارا لیتے ہیں لیکن بروقت مدد نہ ہونے سے اموات ہو جاتی ہیں۔
مکانات جن پر عمر بھر کی کمائی لگتی ہے، پل بھر میں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔پکی سڑکیں اور پل بہہ کر پورے علاقے کا رابطہ منقطع کر دیتے ہیں۔
گاڑیاں، موٹر سائیکلیں اور کاروباری املاک زیرآب آ جاتی ہیں۔ مقامی معیشت تباہ ہو جاتی ہے اور ملک مزید قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ سیلاب کے بعد ہمیشہ فنڈ ریزنگ مہم شروع ہو جاتی ہے۔ حکومتیں اعلان کرتی ہیں، چیف جسٹس فنڈ بناتا ہے، سیاستدان فوٹو سیشن کرتے ہیں، اور بیرونی ممالک امداد کا وعدہ کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ:
کیا یہ فنڈز واقعی متاثرین تک پہنچتے ہیں؟
کیا ان فنڈز سے مستقل بند، حفاظتی دیواریں، ڈیم یا نکاسی آب کا نظام بنتا ہے؟
کیا ان رقوم کا آڈٹ کبھی شفاف انداز میں عوام کے سامنے رکھا جاتا ہے؟
بدقسمتی سے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2010 کے بدترین سیلاب سے لے کر 2022 کے سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے سیلاب تک صورتحال جوں کی توں ہے۔ اگر ان فنڈز کو بحالی کی بجائے پیشگی روک تھام پر لگایا جاتا تو آج شاید پاکستان ہر سال دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا ملک نہ ہوتا۔
جب بھی سیلاب آتا ہے، دنیا کے کئی ممالک امداد بھیجتے ہیں۔ اقوام متحدہ اپنے ادارے متحرک کرتی ہے۔ ترکی، سعودی عرب، چین، امریکہ، یورپ، سب امداد دیتے ہیں۔ لیکن اگر یہ امداد ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی تربیت، جدید مشینری کی خریداری، مضبوط بندوں کی تعمیر، واٹر چینلز کی صفائی،یا چھوٹے اور بڑے ڈیموں کی تعمیر پر خرچ کی جائے تو اگلے سال وہی ممالک تعریف کریں گے کہ پاکستان نے اپنی پالیسی بدل لی۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ امداد خیمے، راشن، ادویات یا عارضی کیمپس پر ختم ہو جاتی ہے۔ اگر متاثرین سے پوچھا جائے تو وہ بتاتے ہیں کہ خیمے بھی بااثر افراد اپنے عزیزوں کو دلوا دیتے ہیں اور غریب بے سروسامانی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔
سیلاب صرف معاشی یا مالی نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس کے اثرات بہت دور رس ہیں۔
سیلاب بچوں کی تعلیم ختم کر دیتے ہیں، خواتین کا عزت و وقار خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
بیماریاں پھیلتی ہیں کیونکہ صاف پانی اور بیت الخلاء کی سہولت ناپید ہو جاتی ہے۔
لوگ سالوں تک قرضوں میں ڈوبے رہتے ہیں تاکہ دوبارہ گھر بنا سکیں۔
روزگار کے مواقع ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ زراعت، لائیو سٹاک اور مقامی مارکیٹ ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس صورت حال سے بچنے کیلئے کیا اقدامات ضروری ہیں تو پاکستان کو سیلاب کی روک تھام کے لیے درج ذیل اقدامات فوری کرنے ہوں گے:
کالا باغ ڈیم سمیت متعدد چھوٹے بڑے ڈیمز جن کا مقصد پانی ذخیرہ کرنا اور سیلاب روکنا ہے، ان پر فوری سیاسی اتفاق پیدا کیا جائے۔
ہر سال مرمت کی بجائے مضبوط اور جدید بند تعمیر کیے جائیں جو کئی دہائیوں تک برقرار رہیں۔
شہروں اور دیہاتوں میں نکاسی کا جامع پلان بنایا جائے تاکہ بارش کا پانی جلد بہہ جائے۔
مقامی انتظامیہ، پولیس، آرمی اور ریسکیو اداروں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تربیت دی جائے تاکہ فوری ریسپانس ممکن ہو سکے۔
سیلاب فنڈز کا آڈٹ ہر تین ماہ بعد پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔
کمیونٹی پارٹیسپیشن: مقامی کمیونٹی کو سیلاب کے خطرات اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ وہ خود بھی اپنا تحفظ کر سکیں۔
دریاؤں، نہروں اور برساتی نالوں پر قبضے ختم کیے جائیں تاکہ پانی کی اصل گزرگاہیں بحال ہوں۔
سیلاب ایک قدرتی حقیقت ہے، اسے روکا نہیں جا سکتا لیکن اس کے اثرات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران ہر سال امداد کے منتظر رہتے ہیں بجائے اس کے کہ مضبوط پالیسیاں، موثر منصوبہ بندی، اور شفاف عملداری کے ذریعے عوام کی جان و مال کی حفاظت کریں۔ اگر اب بھی پاکستان نے اپنی پالیسی نہ بدلی تو آنے والا ہر سیلاب ہمیں مزید پچاس سال پیچھے دھکیل دے گا۔
سیلاب خدا کی طرف سے آزمائش ضرور ہے لیکن ریاست کی غفلت اور بدعنوانی اسے قومی المیہ بنا دیتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment