فرض شناس قیادت کے سائے میں پر امن لاھور۔

تحریر، محمد ندیم بھٹی

لاھور جیسے بڑے اور حساس شہر میں امن و امان کی فضا برقرار رکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ ہر وقت نئی صورتحال، بدلتے ہوئے جرائم کے طریقے، اور عوامی توقعات میں اضافے نے پولیس فورس کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھا دی ہیں۔ ایسے میں اگر کسی ڈویژن میں جرائم کی شرح میں کمی آئے، عوام میں تحفظ کا احساس پیدا ھو، اور پولیس کا رویہ بہتر ھو جائے تو یقیناً یہ قابل تحسین پیشرفت ھے۔ ایسے اثرات تب ھی نظر آتے ہیں جب قیادت مخلص ھو، تدبر رکھتی ھو اور نچلی سطح تک نظم و ضبط کو بہتر بنائے۔
علامہ اقبال ٹاؤن ڈویژن میں حالیہ مہینوں میں جو تبدیلی دیکھی گئی ھے، وہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک باشعور، تربیت یافتہ اور سرگرم ایس پی کی قیادت کا نتیجہ
ھے۔ ڈاکٹر محمد عمر، جو اس وقت اس ڈویژن کے ایس پی کے طور پر خدمات سر انجام دے رھے ہیں، انہوں نے اپنے رویے، فیصلوں اور عملی اقدامات سے یہ ثابت کیا کہ نیت صاف ھو، وژن واضح ھو اور عمل سنجیدہ ھو تو کامیابی خود راستہ بناتی ھے۔ اور ایسے ھی افسران معاشرے میں مثبت تبدیلی لاتے ہیں۔
محرم الحرام کے دوران امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنا ہر سال ایک کڑا امتحان ہوتا ھے۔ جلوسوں، مجالس، عوامی اجتماعات، حساس مقامات اور فرقہ وارانہ تناؤ کو قابو میں رکھنا صرف حکم دینا نہیں بلکہ عملی میدان میں اتر کر تدبیر کرنا پڑتی ھے۔ امسال علامہ اقبال ٹاؤن میں جس منظم انداز سے محرم کے جلوس اور مجالس مکمل امن و امان میں گزرے، اس کے پیچھے دن رات محنت، درجنوں میٹنگز، اور بروقت فیصلے شامل تھے۔ ہر جلوس پر سکیورٹی پلان کے تحت تعیناتی ھوئی، CCTV کیمرے فعال رھے، اور پولیس افسران خود موقع پر موجود رھے۔ ایسے اقدامات سے ہی بڑے سانحات کا راستہ روکا جاسکتا تھا ۔
ایک خاص بات یہ ھے کہ اس مرتبہ تمام مذہبی جماعتوں، مکاتب فکر اور امام بارگاھوں کے منتظمین سے براہ راست رابطے کیے گئے، شکایات سنی گئیں، تحفظات دور کیے گئے اور ان کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے گئے۔ ایسے مشورے باھمی ھم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں اور ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں برسوں سے جاری کشیدگی، طلبہ تنظیموں کے جھگڑے، منشیات فروشوں کی دراندازی اور عام طلبہ کا غیر محفوظ ماحول ایک مستقل مسئلہ بن چکا تھا۔ مگر اس بار پولیس نے صرف نمائشی گشت یا کارروائیاں نہیں کیں بلکہ جامع حکمت عملی سے مسئلے کی جڑ پر ہاتھ ڈالا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ اجلاس ھوئے، طلبہ سے براہ راست ملاقاتیں ھوئیں، خفیہ اطلاعات کی روشنی میں منشیات فروش عناصر کو پکڑا گیا۔ ایسے اقدامات تعلیمی اداروں کو محفوظ بناتے ہیں۔
افسوسناک حقیقت یہ ھے کہ بعض گروہ تعلیمی اداروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے عناصر کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی کی حدود سے اسلحہ برآمد ہونے کے واقعات میں ملوث افراد پر ایف آئی آر درج کی گئی اور انہیں قانون کے مطابق سزا دلوانے کا عمل بھی شروع ھوا۔ ایسے ردِ عمل سے یہ پیغام جاتا ہے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔
علامہ اقبال ٹاؤن ڈویژن میں جوئے کے اڈے برسوں سے کینسر کی مانند پھیلتے جا رھے تھے۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بظاہر بے ضرر دکانوں، ھوٹلوں یا گھروں میں یہ نیٹ ورک فعال تھے۔ مگر حالیہ کارروائیوں نے ان نیٹ ورکس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ کئی ایسے افراد گرفتار کیے گئے جن کے خلاف پہلے کارروائی ممکن نہیں ہو رھی تھی۔ ھے ایسے جرات مندانہ اقدامات سے ھی جرم کا ناسور ختم ہوتا ھے۔
پولیس نے اس بار جوئے کے خلاف جس مستقل مزاجی سے کام کیا، وہ لائقِ تحسین ھے۔ نہ صرف بڑی جگہوں پر چھاپے مارے گئے بلکہ چھوٹے محلے دار گروھوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ، بعض تھانوں میں موجود اندرونی سہولت کاروں کو بھی شناخت کیا گیا اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی گئی۔ ایسے اندرونی احتساب سے ادارے مضبوط ھوتے ہیں۔
ڈرگز مافیا کا خاتمہ بھی پولیس کی بڑی کامیابی ھے۔ منشیات کی لعنت نے معاشرے کو خاص طور پر نوجوان نسل کو شدید متاثر کیا ھے۔ پولیس نے اس بار ایسی حکمت عملی اپنائی جس سے صرف بڑے نیٹ ورک ھی نہیں، بلکہ چھوٹے مگر موثر سپلائرز بھی گرفتار ہوئے۔ ریڑھی بان، رکشہ ڈرائیور، ھوٹل ویٹر جیسے عام نظر آنے والے افراد بھی اس دھندے میں ملوث پائے گئے۔ ایسے خفیہ آپریشنز سے جرم کی جڑیں کاٹی جاتی ہیں۔
منشیات فروشوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں ھو رھی ہیں، اور اب تک درجنوں مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ پولیس نے عوام سے بھی تعاون کی اپیل کی، جس کے نتیجے میں کئی مقامات پر لوگوں نے خود نشاندھی کی اور علاقے کو منشیات سے پاک کرنے میں کردار ادا کیا۔ ایسے عوامی اشتراک سے پولیس کی کارکردگی کئی گنا بہتر ھوئی ۔امن و امان کے قیام کے لیے گشت کا نظام انتہائی اھم ھے۔ علامہ اقبال ٹاؤن ڈویژن میں پولیس موبائلز کی موجودگی، موٹر سائیکل سکواڈز کی گشت اور پیدل گشت کا نظام فعال کیا گیا۔ ہر اہم چوک، اسکول، بازار، اور مسجد کے باہر پولیس اہلکار موجود ہوتے ہیں۔ ایسے ماحول سے چور، ڈاکو اور جرائم پیشہ عناصر خود بخود علاقے سے غائب ھو جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ تھانوں کے اندر اصلاحات بھی کی گئیں۔ اب شہریوں سے بدتمیزی، رشوت یا تاخیر پر زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی
ھے۔ ایس پی خود تھانوں کا اچانک دورہ کرتے ہیں، اہلکاروں سے باز پرس ہوتی ھے اور کارکردگی کا جائزہ ھفتہ وار میٹنگ میں لیا جارھا ھے۔
علاقہ مکینوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا پولیس کا نیا چلن بن چکا ھے۔ مختلف علاقوں میں پولیس عوامی اجلاس منعقد کرتی ھے، جہاں مسائل سنے اور فوری حل کیے جاتے ہیں۔ بزرگ شہریوں، خواتین اور دکانداروں نے اس تبدیلی کو سراہا ھے۔ ایسے اقدامات عوام اور پولیس کے درمیان خلیج کو کم کرتے ہیں۔
ان تمام کارکردگیوں کا کریڈٹ جہاں مقامی قیادت کو جاتا ھے،

Comments (0)
Add Comment