دنیا میں بارشوں اللہ کی طرف سے تحفہ تصور کیا جاتا ہے دنیا میں سب سے زیادہ بارشیں ملائشیاء، تھائی لینڈ، سنگاپور ،ویتنام، لاؤس، کمبوڈیا انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں ہوتی ہیں ملائشیاء کے پاس سال میں تین سو دن بارشوں کا ریکارڈ ہے وہاں بھی کبھی کبھار بہت زیادہ بارش ہو جاتی ہیں انہوں نے سارے ملک میں بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بہترین انتظام کیا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ بارشیں ان کے لیے عذاب نہیں بلکہ رحمت بن جاتی ہے وہ بارش کی وجہ سے کوئی کام موخر نہیں کرتے کیونکہ بارشیں اب ان کی زندگی کا ساتھی بن چکی ہیں ملائشیاء کا کوئی بھی شہری گھر سے نکلتا ہے تو اس کے پاس تین چیزیں ضرور ہوتی ہیں چھتری، بیگ اور برساتی چھتری ان کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے وہ اس لیے کہ اگر بارش نہ ہو تو دھوپ اتنی تیز ہوتی ہے کہ ان کے سروں کو جھلسا دیتی ہے وہ اس وقت تک کسی بلڈنگ کا نقشہ پاس نہیں کرتے جب تک اس کے سامنے چھ فٹ کا برآمدہ نہ چھوڑا جائے اور جہاں بلڈنگیں نہیں ہوتی وہاں ملیشین حکومت نے فٹ پاتھ اور اوور ہیڈ برجز پر فائبر گلاس کی چھت ڈالی ہوتی ہے یعنی آپ اگر کوالالمپور میں گھوم رہے ہیں تو اسی فیصد حصہ سائے میں رہیں گے
وطن عزیز میں صورتحال اس لیے مختلف ہے کہ ہم نے بارشوں کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا سارا سال ہم موسمی شدت برداشت کرتے ہیں بارشوں کے لیے اللہ کے حضور دعائیں کرتے ہیں لیکن جیسے ہی بارشیں ہوتی ہیں ہم چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے ملک میں خشک سالی کو کبھی سنجیدہ لیا ہی نہیں یہاں ہر سال بارشیں آتی ہیں بڑے بڑے سیلابی ریلے اپنی مرضی کی تباہی اور بربادی
داستانیں رقم کرتے ہیں عمارتیں گر جاتی ہیں فصلیں ڈوب جاتی ہیں مویشی بہہ جاتے ہیں اور بہت سی جگہوں پر انسانی جانوں کا بھی نقصان ہو جاتا ہے ہمارے سیاستدان دو دن بیان بازی کرتے ہیں اور پھر آپس میں دست و گریباں ہو جاتے ہیں
گزشتہ سال جب سیلاب آیا تو میں جنوبی پنجاب میں تھا میں نے بہت سے علاقوں کو پانی میں ڈوبے دیکھا بے شمار دیہات سارے کے سارے ڈوب گئے لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے غریب کسانوں کے مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ایک بد نصیب عبدالرشید سے میری ملاقات ہوئی اس کی ایک سو کے قریب بھیڑیں باڑے میں بند تھیں وہیں ڈوب کہ مر گئیں اس کی بے بسی کو کوئی کیا سمجھے جس کی ساری زندگی کی جمع پونجی سیلاب لے اڑا پنجاب میں ریسکیو کی امدادی ٹیمیں لوگوں کو بچانے کے لیے سر توڑ کوشش کرتی رہیں اور بہت سے لوگوں کو ریسکیو کرنے میں کامیاب بھی رہیں لیکن سندھ اور بلوچستان میں لوگوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا
اسمبلی کے فلور پر سیاست دانوں نے سیلاب زدگان سے ہمدردیاں دکھائیں اقوام عالم سے فنڈز اکٹھے کیے گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کی اور آئندہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے لوگوں کو بچانے کے لیے بے شمار تجاویز پیش کیں ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے سارا سال گزر گیا لیکن کچھ نہ کیا جا سکا نہ تو بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ڈیم یا کمپاؤنڈ بنائے گئے نہ چولستان تھل اور تھر کے علاقے میں ٹوبے بنائے گئے نہ ہی کوئی نئی نہریں نکالی جا سکیں پنجاب میں خیر اس وقت بھی دو نہروں پر کام جاری ہے لیکن ابھی تک حکومت پنجاب کی طرف سے اعلان کردہ دریائے ستلج ،راوی، چناب ،جہلم کے ساتھ کسی قسم کے کمپاؤنڈ نہیں بنائے گئے اگر
آ ج بھی ان پر کام شروع ہوتا ہے تب بھی سالوں لگ جائیں گے
دوسری طرف سمارٹ فون والے حضرات جن الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ بالکل غیر مناسب اور غیر مہذب ہوتے ہیں پنجاب کے بہت سے شہروں میں سیوریج کا اچھا نظام موجود ہے لیکن جتنی بارشیں ہوئی ہیں پانی کو نکلنے کے لیے یقینا وقت چاہیے ہوتا ہے کیونکہ سیوریج لائنوں کی بھی ایک کپیسٹی ہوتی ہے ویسے تو جس علاقے میں سیوریج لائن ڈالی جاتی ہے اس علاقے کی آبادی کی اوسط اور اس کے ساتھ بارشوں کا اندازہ لگا کر ڈالی جاتی ہے لیکن اگر بارشیں شدت اختیار کر جائیں اور زیادہ دیر تک ہوتی رہیں تو پانی نے کہیں نہ کہیں تو جمع ہونا ہوتا ہے اس لیے میری تمام شہریوں سے اپیل ہے کہ برائے کرم صبر کیا کریں اتنی بارشیں تو اگر امریکہ، برطانیہ ،یورپ ،چین، جاپان جیسے ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی ہو جائیں تو اس کے نتائج یہی ہوں گے اس وقت چین، جاپان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، انڈیا کے ساتھ امریکہ کی بہت سی ریاستیں بھی سیلابوں کا شکار ہیں بارشوں کا پانی کسی خطے کا پابند نہیں ہوتا یہ جہاں بھی جمع ہوگا اور ضرورت سے زیادہ ہوگا سیلابی شکل اختیار کر جائے گا لیکن ان ممالک میں آپ نے کسی کو موبائل فون پر حکومت کو گالیاں نکالتے نہیں دیکھا ہوگا زیادہ بارشیں قدرتی آفت ہو تی ہیں اس لیے صبر و تحمل سے کام لیا کریں
حکومت کو چاہیے کہ آج سے ہی آئندہ بارشوں اور سیلابوں کے سد باب پر کام شروع کر دیں تاکہ آئندہ سال بارشوں کی تباہ کاریوں سے جہاں تک ہو سکے بچا جا سکے لاہور ان شہروں میں شامل ہے جہاں زیر زمین پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے تحریک انصاف کے دور میں سوسائٹیوں میں کنویں بنا کر زمین کو ری فیل کرنے کا پروجیکٹ شروع ہوا تھا اس پر دوبارہ سے کام شروع کیا جائے تاکہ بارشوں کے پانی کے ذریعے زمین کہ واٹر لیول کو بہتر کیا جائے پنجاب میں جہاں جہاں خالی اور بے
آ باد زمینں پڑی ہیں وہاں کلو میٹروں میں واٹر کمپاؤنڈ بنا کر سیلابوں کے پانی سے بھر لیں ٹوبے بنائیں ستلج،