“بچپن کی پگڈنڈی سے شعور کی چٹان تک”

فرخندہ شمیم farkhandashamim 58 @ gmail.com

بریگیڈیئر ر صولت رضا کے کاکولیات نے 1975 میں پہلی اڑان بھری اور 2024 میں بتیسویں اٹھان دے دی۔۔۔۔یہ قبولیت کی سند ہے اور اس سند میں بریگیڈیر صاحب کو پاپڑ نہیں بیلنے پڑے ہیں ۔۔۔۔پرومو،پبلسٹی، “دراز” کچھ نہیں ۔۔۔ زیادہ گورکھ دھندہ ۔۔۔؟
نہیں ۔۔۔۔احباب اگراپنے اپنے سے ہوں،وسیع العشق اور ،وسیع النظر۔ہوں۔۔اور اشاعتی ادارے ، صرف کمرشل نہیں محبتی بھی ہوں۔۔۔۔تو۔سفر کا لطف ابھر آتاہے ہے ،چاہے پھر اوقیانوس پار کرنا پڑے
یا صحارا

کاکولیات شاید میرے کتاب عشق کی اولین دستکوں میں سے ایک تھی۔ہایر سیکنڈری سکول میں پڑھتی تھی۔۔۔۔بڑے بھائی کو کتابوں کا جنون تھا،کاکولیات شاید اس لیے بھی ان کی محبت بن چکی تھی اور اکثر ان کے ہاتھ میں رہتی تھی کہ وہ شیفتگی ءجنون کے باوجود فوج میں کمیشن نہیں لے سکے تھے،وہ کاکول کے تصور سے باہر نہیں آ پاتے تھے چنانچہ جب بریگیڈیئر صولت کی کتاب میں، میں نے ای ایس ایس بی کا تفصیلی باب پڑھا تو جانیے مجھے اس نام سے وحشت ہو گئی ۔۔۔اسی نے تو میرے بھائی کا خواب ٹوڑا تھا ۔۔۔۔اور پھر بھیا اپنی لیاقت سے سول میں اوج ثریا تک بھی پہنچے تھے اور پھر وہ باغ خلد تک بھی چلے گئے۔۔۔ لیکن بریگیڈیئر صولت رضا کو کمیشن لیتا دیکھ،کیڈٹ بنا دیکھ صرف اس لیے اچھا لگا کہ زندگی کٹھنایوں کے بعد ہی تکمیل پاتی ہے اور مقصود کا حصول اس کے بغیر ایسا ہی ہے جیسے کسی بدعنوان سیاست دان کی ناجائز دولت ۔۔۔۔
پاکستانی فوج نے صرف جنرل پیدا نہیں کیے،چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہی پیدائش نہیں کیے،وردی اتار کر سادہ کپڑے پہن کر صدور بننے والے فوجی افسران ہی پیدا نہیں کیے،اہل درد تخلیق کار بھی جنم دہے۔۔ہیں۔ جنہوں نےروپ چاہے مزاح کا لیا ہو چاہے سنجیدگی کا،قلم جو تھاما تو اس نکاح کو اخر تک نبھایا ۔
ویسے بار دگر کسی غیر فوجی کے لیے فوجی کتاب پڑھنا کسی آزمائش سے کم نہیں

کیونکہ وہ فرنٹ رول،کریم رول اور فراگ سے نا واقف ہوتا ہے لیکن فوجی اگر ادیب ہو تو کچھ سہولت ہو جاتی ہے فوجی ادیب باز نہیں آتا اور چھیڑ خوباں کر کے ہی چھوڑتا ہے

کاکولیات میں مصنف نے اپنے جملہ کمیشن کیریئر کو سادہ سادہ ابواب میں لکھا ہے۔۔۔عنوانات اردوئے معلی کی طرح نستعلیق کی بجائے ڈپٹی نذیر احمد کے پیرائے میں چنے ہیں
صراط کمیشن
السلام علیکم سر
روٹ مارچ
نائٹ کلب اور
دیگر
ان ابواب میں “السلام علیکم سر” کا جواب نہیں ۔۔سیاق بھی بے ساختہ اور سباق بھی ندی میں آنے والے پہلے پانی کی طرح ۔۔۔۔السلام علیکم ۔۔۔گویا زبان کھلنے کی چابی،اس چھوٹے نمازی کی اڑان،جو اذان کا پہلا کلمہ اللہ اکبر کو سنتے پی، انکھ کھولنے سے پہلے بنا وضو،مسجد کی سمت بگٹٹ بھاگے کہ یہی اس کے اتالیق کا پہلا سبق ہے
اس کے بعد پوری کتاب اور قاری
پی ٹی،ڈرل،ڈنٹر،روٹ مارچ ،فراگ،جمپ،کو پیمائی ،بھوک،برداشت،خواب،،چوٹیں،ہمدردیاں
پڑھت
خواندگی
پڑھتے گیے
اور کتاب کا آخر آگیا

بریگیڈیئر صولت رضا کے پین میں بناوٹ نہیں ہے ۔جملہ کاری کی کوئی شعوری کوشش نہیں کرتے ۔۔اس کے باوصف جب کیڈٹ ترنگ میں پوتا ہے تو ایسے خوشگوار جملے لکھتا ہے

پنجاب یونیورسٹی کی تاریخی نہر پر لکھا
“کبھی کبھی ایک کونے سے آورد قسم کی سسکیاں سنائی دیتیں تو یوں لگتا جیسے کسی نے محبت اور پیار کی نہر کا پانی بند کر دیا ہو”

“مجھے یاد ہے کہ اردو سکولوں کے پڑھے ہوئے انگریزی اخبار کا اداریہ رٹا کرتے اور انگریزی سکولوں کالجوں والے نماز معنی کے ساتھ یاد کرتے تھے”
شاید وہ اس خبر کو تلاش کر رہے تھے جوکسی اخبار میں نہیں تھی

“۔۔۔لیکن جب اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے تو یوں لگتا جیسے کسی نے تھان سے دس بارہ دھاگے کھینچ لیے ہوں۔۔کیڈٹ ایک دوسرے کا سر دیکھتے تو ان کی وہی حالت ہوتی جو مور کی اپنے پاؤں کا نظارہ کر کے ہوتی ہے
باب۔۔۔۔روٹ مارچ
“ہم نے بچشم خود یہ منظر دیکھا کہ ذمہ دار شخص بوٹوں کو گود میں لیے یوں صاف کر رہا ہے جیسے بچے کو زبردستی منجن کرایا جاتا ہے”
لطف آ یا
تاہم

ایک بات ضروری

بریگیڈیئر ر صولت رضا کو اس” بیتی” میں کسی ایک صیغے پر اکتفا کرنا چاہیے تھا۔
صیغہ جمع۔۔۔یعنی ہم
یا صیغہ واحد متکلم۔۔۔یعنی میں
مصنف کہیں “ہم” اور کہیں” میں” کرتے رہے ہیں ۔ یاد رہے کہ میں نے” میں میں ” نہیں کہا ہے۔

بریگیڈیر ر صولت رضا کی رعنائی قلم کے لیے ہمیشہ دعائیں

Comments (0)
Add Comment