شاعری کے لبادے میں بےحسی کا کاروبار*

تحریر: رخسانہ سحر

ادب، خاص طور پر شاعری، کبھی روح کی غذا ہوا کرتی تھی۔ لفظوں کے دریا سے جب تخیل کا موتی نکلتا، تو قاری اسے آنکھوں سے لگا لیتا تھا۔ مگر آج؟ آج تک بندی کو شاعری، بے ہنری کو تخلیق، اور چاپلوسی کو فن کا معیار سمجھا جا رہا ہے۔ یہ وہ زوال ہے جس پر صرف افسوس نہیں، صد افسوس بنتا ہے۔

ہر دوسرا شخص چند مصرعوں کو جوڑ کر، قافیہ ردیف کی لاٹھی تھام کر، خود کو شاعر کہلوانے لگا ہے۔ نہ عروض کی سمجھ، نہ خیال کی تہہ، نہ احساس کی شدت — بس سماجی میڈیا کی نمائش اور ادبی محفلوں کی واہ واہ۔ ایسے لوگ جب سچے فنکاروں کو نظرانداز کرتے ہیں اور اپنے گروہ میں صرف خوشامدیوں کو جگہ دیتے ہیں، تو یہ شاعری نہیں، مفاد پرستی کا کاروبار بن جاتا ہے۔
اور المیہ یہیں ختم نہیں ہوتا وہی چرب زبان، وہی فیس بکی شاعر، نہ صرف تک بندی سے ادب کا جنازہ نکالتے ہیں بلکہ دوسروں کے گھروں کے رزق پر پل کر بھی فخر سے سینہ تان کر چلتے ہیں۔ خود داری، خود محنت، اپنی جگہ مگر ان کے لیے نہیں۔ جو قلم رزق کے بدلے بکتا ہو، وہ کیسے کسی سچ کی نمائندگی کرے گا؟ جو شعر داد کے بدلے لکھا جائے، وہ دل میں کیسے اترے گا؟

افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نہ صرف ایسے لوگ پذیرائی پاتے ہیں، بلکہ اصل اہلِ فن کو حاشیے پر دھکیل دیا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے نہ صرف ادب کو نقصان پہنچایا، بلکہ معاشرتی اقدار کو بھی پامال کیا ہے۔ یہ لوگ اپنی بےشرمی کو ہنر کا نام دیتے ہیں اور بےحسی کو کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں۔

ادب کا فریضہ صرف خوبصورتی تخلیق کرنا نہیں، بلکہ سچ بولنا بھی ہے — اور یہی سچ آج ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تک بندی شاعری نہیں، اور کسی کی محنت پر پلنا افتخار نہیں، جرم ہے — فن کے خلاف جرم، معاشرے کے خلاف جرم، خودی کے خلاف جرم۔

اگر ہم نے وقت پر سچ نہ بولا، تو کل یہ خوشامدی گروہ ہمارے ادب کی لاش پر جشن مناتا نظر آئے گا — اور ہم، اہلِ درد، صرف دیکھتے رہ جائیں گے۔

“شاعری کے لبادے میں بےحسی کا کاروبار” صرف ایک تنقیدی کالم نہیں، بلکہ عصرِ حاضر کے اس المیے کی صدائے احتجاج ہے جس میں فن کو فریب، اور تخلیق کو تجارت بنا دیا گیا ہے۔ جب لفظ صرف شہرت کے حصول کی سیڑھی بن جائے، اور فنکار فن کی حرمت کو ذاتی فائدے کی قربان گاہ پر چڑھا دے، تو پھر وہی ہوتا ہے جو اس کالم میں عیاں ہے — یعنی تخلیق کی بےتوقیری اور ضمیر کی بےحسی۔
یہ کالم محض تک بندی اور جھوٹی شہرت کے خلاف نہیں بلکہ اس پورے ذہنی و اخلاقی نظام کے خلاف ہے جو دوسروں کے رزق پر پلنے والے، اور خوشامد سے مقام خریدنے والے نام نہاد “ادبی خادموں” کو ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے۔
جیسا کہ امام حسینؑ نے فرمایا:
“میں ظلم کے نظام کو گرا دینا چاہتا ہوں اور عدل کی بنیاد رکھنا چاہتا ہوں۔”
یہ کالم بھی اسی فکری جہاد کا ادبی عکس ہے ایک خاموش مزاحمت، ایک باوقار انکار۔

اقبالؔ نے کہا تھا:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا، تیری رضا کیا ہے
مگر یہاں خودی کی بلندی کے بجائے، “دوسروں کے رزق پر پلنے” اور فن کو بیچنے کی روش ہے۔ یہ کالم اسی رجحان کے خلاف ایک چراغ ہے، جو شاید اندھیرا مٹا نہ سکے، مگر آنکھوں میں چبھتا ضرور ہے۔

Comments (0)
Add Comment