صوبائی دارلحکومت لاہور بدحالی کا شکار

ملک سلمان maliksalman2008@gmail.com

نواز شریف کی یہ خوبی سب سے منفرد ہے کو انہوں نے پنجاب اور پاکستان کو جدید سہولیات سے آراستہ بھی کیا لیکن اس کی قدیم تاریخ کو زندہ رکھنے کیلئے بھی عملی اقدامات کیے۔ تہذیب و ثقافت کا گہوارہ اور تاریخی اہمیت کے حامل لاہور کی قدیمی حیثیت کی بحالی کے اعلان سے لاہور سے محبت کرنے والے ہر فرد نے اس فیصلے پر شدید خوشی کا اظہار کیا۔ دنیا بھر میں موجود لاہوریوں نے اسے لاہور اور پنجاب کی سیاحت کے فروغ کا نقطہ آغاز قرار دیتے ہوئے قدیم ثقافت کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا۔ ایک طرف نواز شریف لاہور کو دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنانے جارہے ہیں تو دوسری طرف لاہور لاقانونیت کی عملی شکل اور تجاوزات کا اڈا بن چکا ہے۔
دنیا بھر میں صوبائی دارلحکومت کو ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ماضی میں جب شہباز حکومت میں لاہور کی تعمیروترقی پر تنقید ہوتی تھی تو میں ناقدین کو سمجھاتا تھا کہ لاہور صوبائی دارلحکومت ہے اور دنیا کے تمام ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ صوبائی ہیڈکوارٹر کو سب سے زیادہ ڈویلپ کرتے ہیں۔ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ میں سارا پاکستان لاہور کو رشک نگاہوں سے دیکھتا تھا۔
اب یہ صورت حال ہے کہ تاریخی عمارات کا حامل لاہور اپنی شناخت کھو چکا اور صرف یہی پہچان باقی رہ گئی کہ بے ہنگم ٹریفک اور تجاوزات۔
ویسے تو پورے پنجاب کی ٹریفک پولیس ہی ٹک ٹاکر، کام چور اور غیرقانونی پارکنگ مافیا کی ساتھی ہے لیکن لاہور ٹریفک پولیس کا شمار نااہل اور کرپٹ ترین میں ہوتا ہے۔ ابھی تک بغیر نمبر پلیٹ،بلیک پیپر،راڈ لگاکر چھپائی اور غیر نمونہ نمبر پلیٹ گاڑیوں کے خلاف کاروائی نہیں ہوسکی۔
کبھی یہ دور تھا کہ لاہور کی سیاحت غیر ملکیوں کی توجہ کا مرکز ہوتی تھی اور مشہور تھا کہ جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں۔
ٹی ڈی سی پی سائٹ سیننگ بس سروس سے لاہور کو ایکسپلور کروانے کا اچھا انتظام کیا گیا ہے لیکن تجاوزات اور بے ہنگم ٹریفک کے باعث اس سہولت سے پوری طرح سے لطف اندوز ہونا ممکن نہیں ہو رہا۔
صرف ضلع لاہور میں پانچ ہزار ارب سے زائدمالیت کی سرکاری زمینوں پر پرائیویٹ مافیا کے قبضے ہیں۔لاہور کی مختلف مارکیٹوں اور شاہراؤں پر عارضی تعمیرات اور تجاوزات قائم کروا کرماہانہ پچاس کروڑ سے زائد صرف تجاوزات کی آمدنی ہے جس میں ضلعی انتظامی افسران، ایل ڈی اے، لوکل گورنمنٹ اور دیگر محکموں کے افسران اور اہلکار برابری کی بنیاد پر بینفشریز ہیں۔
ڈپٹی کمشنر لاہور کی ہدایات کے باوجود میونسپل کارپوریشن اور اسسٹنٹ کمشنرز احکامات پر عمل درآمد کرکے اپنی منتھلی پر کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں ہیں۔یہی وجوہات ہیں کہ وزیراعلیٰ اور بورڈ آف ریونیو دونوں کے”کے پی آئی“ میں لاہور مسلسل آخری نمبروں پر ہے۔
لاہور میں 20فیصد تجاوزات ختم کروائی گئیں جبکہ چالیس فیصد نئی تجاوزات کی تعمیرات ہوچکی ہیں۔ چھوٹے موٹے چکڑ چوہدریوں نے جنگلے اور گیٹ لگاکر گلیاں بند کرنا شروع کی ہوئی ہیں تو متعدد مقامات پر حکومتی اداروں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ رہائشی علاقوں میں قائم سرکاری دفاتر کے سامنے اور لیف رائٹ والے گھروں نے بیچ سڑک پتھر رکھ کر رکاوٹیں قائم کی ہوئی ہیں کہ کوئی سرکاری گاڑی پارک نہ ہوجائے۔ قانون کی رٹ ختم ہوچکی ہے۔ گھروں کی باہر سرکاری زمین پر نرسریاں اور گارڈ روم بنائے جارہے ہیں۔ کار شو رومز اور کار مکینک لاہور کی تمام سڑکوں پر قابض ہو کر بیچ سڑک دکانداری کررہے ہیں۔
خوش آئند بات ہے کہ سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ ٹک ٹاکر نہیں ہیں اور پروفیشل پولیسنگ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ڈی آئی جی اپریشن لاہور فیصل کامران کی دیانت داری، میرٹ اور فرض شناسی کا ہر کوئی معترف ہے جس کے نتیجے میں آج لاہور پولیس کا شمار دنیا کی بہترین پولیس میں ہورہا ہے۔
سرکاری زمینوں پر قائم غیر قانونی ہاؤسنگ پراجیکٹس،کمرشل مارکیٹوں اور دیگر تعمیرات کا ماہانہ کرایہ سرکاری افسران کھا رہے ہیں۔باغوں کے شہر لاہور کے پارکس کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہے ہیں۔ ایل ڈی اے کے افسران تو مہینوں میں کروڑ پتی ہوجاتے ہیں لیکن شہریوں اور حکومتی مفاد کے کام نہیں ہوتے۔ لاہور کے آدھے سے زائد پیٹرول پمپ کسی بھی طور پر رجسٹریشن کی بنیادی شرائد پر پورا نہیں اترتے اور کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں سب اپنا حصہ وصول کر”اوکے“ کی این او سی دے رہے ہیں۔
تجاوزات کے خاتمے کے حوالے سے پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کی کامیابی کے چانسز بھی معدوم ہیں کیونکہ اکثر تحصیلوں میں PERA کا چارچ اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیلداروں کے پاس ہے۔ وہی قاتل وہی منصف کے مصداق اگر یہ اسسٹنٹ کمشنرز اور تحصیلدار اتنے ہی اچھے ہوتے تو سرکاری زمینوں پر قبضے ہی کرواتے۔ اسی طرح انڈرٹریننگ پیریڈ مکمل کرکے PERAمیں آنے والے نئے بچوں نے کام تو شروع نہیں کیا لیکن سوشل میڈیا پر دن رات ویگو ڈالوں کے ساتھ فوٹو سیشن اور ڈالہ گردی کرتے ضرور نظر آرہے ہیں۔PERA اسی صورت کامیاب ہوسکتی ہے اگر اس کیلئے ریگولر افسران بھرتی کیے جائیں جو مقامی اسسٹنٹ کمشنرز کی طرف سے تجاوزات مافیا کا ساتھ دینے کی شکایات ڈائریکٹ سی ایم اور ڈی جی کو کرسکیں۔ فی الحال تو ایسا ہوتا ممکن نہیں لگ رہا کیونکہ PERAکے افسران اسسٹنٹ کمشنرز سے جونئئیر بیچ کے ہیں اور خود کو انکا ماتحت ہی تصور کرتے ہیں۔
مریم نواز اپنی وزارت اعلیٰ میں سات دفعہ تجاوزات کے خاتمے کا الٹی میٹم دے چکی ہیں لیکن بیوروکریسی تجاوزات ختم کروانے میں سیریس نہیں۔تجاوزات فری پنجاب کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا۔
اگر سی سی ڈی 30دن میں جرائم کا خاتمہ کرسکتی ہے تو ضلعی افسران ایک سال میں تجاوزات ختم نہیں کرواسکتے تھے؟ سب ممکن ہے لیکن اس کیلئے حرام کی کمائی چھوڑنا پڑتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment