پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں ملک کے ارتقا پذیر سیاسی ڈھانچے کے بارے میں ایک واضح اعتراف کیا ہے جسے وہ “سول۔فوجی ہائبرڈ ماڈل” قرار دیتے ہیں۔ خواجہ آصف کے مطابق یہ ماڈل فی الحال وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں مؤثر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ اگرچہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک خالص جمہوری آئیڈیل سے کم ہے لیکن وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس انتظام نے سفارت کاری، اقتصادی پالیسی اور قومی سلامتی کے شعبوں میں ٹھوس فوائد حاصل کیے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان نے اپنے سول۔فوجی ہائبرڈ طرز حکمرانی کے ماڈل میں نمایاں استحکام دیکھا ہے، جس سے دفاع، اقتصادی اور انتظامی شعبوں میں اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس دور میں سویلین اداروں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بے مثال سطح کی ہم آہنگی دیکھنے میں آئی ہے، جس سے ملک کے کثیر الجہتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک متحد نقطہ نظر ممکن ہوا ہے۔ شہباز شریف کی سویلین قیادت اور عاصم منیر کی فوجی کمانڈ کے درمیان اسٹریٹجک ہم آہنگی نے قومی سلامتی کو بڑھایا ہے، میکرو اکنامک اشاروں کو بہتر بنایا ہے، ترقیاتی پیش رفت کو تیز کیا ہے اور پاکستان میں ایک نیا طرز حکمرانی قائم کیا ہے۔
دفاع کے شعبے میں فیلڈ مارشل منیر کا دور انقلابی رہا ہے۔ فیلڈ مارشل کے رینک پر ان کی ترقی، جو پاکستان کی تاریخ میں ایک غیر معمولی اعزاز ہے، نہ صرف ان کے انفرادی قد و قامت کی علامت ہے بلکہ ان کی قیادت میں قومی خودمختاری کے دفاع میں فوج کے کلیدی کردار کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ ان کی کمان کے آغاز میں پاکستان کو مشرقی سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کا سامنا تھا، جس میں بھارت کے ساتھ کشیدگی شامل تھی۔ فیلڈ مارشل کی ہدایت پر فوج کے نپے تلے مگر پرعزم ردعمل نے کشیدگی کو کامیابی سے روکا، جو ملک کی علاقائی سالمیت کی حفاظت کے لیے تیاری کی تصدیق کرتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی ان کارروائیوں کی غیر مشروط سیاسی توثیق نے سول۔فوجی اتحاد کی مضبوطی کو اجاگر کیا۔ اس تنازعے کے دوران، پاکستان نے مبینہ طور پر بھارت پر فیصلہ کن فوجی کامیابی حاصل کی، جو سویلین اور فوجی حکام کے درمیان غیر معمولی ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے اور قومی یکجہتی اور عوامی حوصلے کے ایک نایاب لمحے کی عکاسی کرتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی باہمی قیادت پاکستان کے سیاسی ارتقا میں ایک اہم باب کی علامت ہے۔ ان کی شراکت داری روایتی ادارہ جاتی رقابت سے آگے بڑھی اور ایک تعمیری حرکیات کو فروغ دیا جہاں فوجی نظم و ضبط اور اسٹریٹجک گہرائی کو سویلین پالیسی سازی اور ترقیاتی وژن کے ساتھ مؤثر طریقے سے جوڑا گیا۔ نتائج واضح تھے یعنی بہتر سرحدی سلامتی، احیا شدہ اقتصادی شعبے، بحال شدہ سرمایہ کاروں کا اعتماد اور بڑھتی ہوئی ریاستی صلاحیت۔
یہ سمجھنا ضروری یے کہ پاکستان کی فوجی قیادت نے سیاسی معاملات میں مسلسل غیر جانبداری اور عدم شمولیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس موقف کی بارہا فیلڈ مارشل، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں سمیت سینئر شخصیات نے تصدیق کی ہے۔ فیلڈ مارشل کے پاکستان کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے ارادے کی بے بنیاد افواہیں ریاست مخالف عناصر کی طرف سے پھیلائے جانے والے بے سروپا پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ یہ بیانیہ قومی یکجہتی کو کمزور کرنے اور ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی ایک مذموم پروپیگنڈا مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
ایسے عناصر بظاہر سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان بڑھتی ہوئی ہم آہنگی اور فی الوقت دیکھے جانے والے غیر معمولی سطح کے تعاون سے مایوس ہیں۔ اس ہم آہنگی نے نہ صرف سیاسی استحکام میں حصہ ڈالا ہے بلکہ ملک کو کئی محاذوں پر نمایاں پیش رفت کرنے کے قابل بھی بنایا ہے۔ اس باہمی افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کے پیش نظر، یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ کوئی فرد یا ادارہ موجودہ نظام کو خراب کرنا چاہے گا۔
“ہائبرڈ ماڈل” کا تصور اکثر غلط سمجھا جاتا ہے اور غلط پیش کیا جاتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس ماڈل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سویلین یا فوجی قیادت ایک دوسرے پر بالادستی چاہتی ہے۔ بلکہ، یہ تعاون کے ایک فریم ورک کی عکاسی کرتا ہے، جہاں دونوں ادارے ایک مشترکہ مقصد سے متحد ہوتے ہیں اور وہ ہے قوم کے مفادات کی خدمت کرنا اور ملک کو اس کے چیلنجوں سے نکالنا۔ دونوں قیادتوں نے باہمی احترام کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک دوسرے کے کرداروں یا ذمہ داریوں کو کمزور کرنے کی کوششوں کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔
اقتدار پر قبضے کا جھوٹا بیانیہ ان لوگوں کی خود غرضانہ اور من گھڑت کہانی ہے جن کی سیاست اختلاف، تقسیم اور نفرت سے جڑی ہوئی ہے۔ مضبوط سول۔ فوجی تعاون پریشان کن ہونے کے بجائے ایک طاقت ہے جسے قومی ترقی اور استحکام کے وسیع تر مفاد میں برقرار رکھنا چاہیے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔
چونکہ پاکستان اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے تو اس ہائبرڈ ماڈل کی کامیابی نے عوامی توقعات میں، مزید قریبی سول۔ فوجی تعاون کے لیے، اضافہ کیا ہے۔ جب کہ ایسے ماڈل کی طویل مدتی پائیداری شفافیت، آئینی پابندی اور جمہوری احتساب پر منحصر ہوگی،موجودہ مرحلے نے یہ ظاہر کیا کہ جب مقصد میں ہم آہنگی ہو تو پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت قومی ترقی کے لیے ایک طاقتور خاکہ پیش کر سکتی ہے۔ ہائبرڈ ماڈل نے نہ صرف ٹھوس فوائد فراہم کیے ہیں بلکہ ایک زیادہ مستحکم اور مستقبل کی طرف دیکھنے والے حکمرانی کے راستے کے لیے امید کو بھی زندہ کیا ہے۔