وفاقی حکومت نے پٹرول 5.36 اور ڈیزل کی قیمت میں 11.37 روپے لٹر کا بڑا اضافہ کردیا،ہے وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت نے اوگرا اور متعلقہ وزارتوں کی تجویز پر اگلے 15 روز کیلئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔
پٹرول کی قیمت میں 5 روپے 36 پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے جس سے پٹرول کی قیمت 266 روپے 79 پیسے سے بڑھ کر 272 روپے 15 پیسے فی لٹر ہو گئی ہے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 11 روپے 37 پیسے اضافہ کیا گیا ہے ، ہائی سپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 284 روپے 35 پیسے فی لٹر ہوگئی، جبکہ اس سے قبل 272روپے 98پیسے فی لٹر تھی۔پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق رات 12 بجے سے ہوگیا ہے ۔اسی طرح ڈی ریگولیٹڈ مارکیٹ میں مٹی کا تیل 3 روپے 10 پیسے سستا ہوا ہے اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت ایک روپے 85 پیسے کم ہوئی ہے
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ٹرانسپورٹر سرکاری کرایہ ناموں کا انتظار کیے بغیر ہی من چاہا کرایہ وصول کرنے لگتے ہیں لیکن جب قیمتوں میں کمی ہوتی ہے تو کرایے کم کرنے کے حوالے سے لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔ حکومت کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے تناظر میں نظر ثانی شدہ کرایہ نامے جاری کرنے کیساتھ ساتھ اُن پر عملدرآمد بھی یقینی بنانا چاہیے۔ جس طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کا اثر ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات میں اضافے کی صورت میں مجموعی مہنگائی میں اضافے کا باعث بنتا ہے‘ ویسے ہی عوام کو سستی پٹرولیم مصنوعات کا حقیقی ریلیف تبھی مل سکے گا جب ٹرانسپورٹیشن اخراجات میں کمی کے اثرات غذائی اجناس کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں بھی سامنے آئیں گے۔رواں ماہ کے دوران مسلسل دوسری بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھی ہیں جس سے عوام پر معاشی بوھ بڑھا ہے
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 16 جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ پندرہ روز کے دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں اور درآمدی پریمیم میں اضافے کے باعث پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) کی قیمتوں میں بالترتیب 5 روپے 25 پیسے اور 6 روپے 50 پیسے فی لیٹر اضافے کا امکان ہے۔
مزید رپورٹ کیا گیا تھا کہ پیٹرول کی ایکس ڈپو قیمت میں تقریباً 2 فیصد اضافہ ہو کر یہ 272 روپے 4 پیسے فی لیٹر ہونے کی توقع ہے، جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 2.5 فیصد اضافے کے ساتھ یہ 279 روپے 48 پیسے فی لیٹر تک پہنچ سکتی ہے، تاہم اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا آضافہ قیافوں اور اور اندازوں سے بھی بڑھ گیا ہے
واضح رہے کہ پیٹرول موٹر سائیکلوں، رکشوں اور نجی گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے، اس لیے اس کی قیمت میں اضافہ متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے بجٹ پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ میں لانے کےدعوؤں کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مہنگائی کی بلند شرح اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے نے تنخواہ دار اور مزدور طبقے کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ اگرچہ حکومت عالمی اداروں کے اعداد و شمار اور مثبت معاشی اشاریوں کی بنیاد پر معیشت کی بہتری کے دعوے کر رہی ہے، لیکن عام شہری اب بھی ان ثمرات سے محروم نظر آتا ہے۔ اس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ جب پارلیمنٹیرینز، وزراء اور دیگر اعلیٰ حکام کی تنخواہوں اور مراعات میں غیر معمولی اضافہ کیا جا سکتا ہے تو اسی تناسب سے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ پارلیمنٹ کے اراکین کی تنخواہوں میں کئی سو فیصد اضافہ کرکے اسے معیشت کی مضبوطی کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن عام شہری اب بھی بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہا ہے۔
تاجروں نے 19 جولائی کو پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کاروباری برادری کو سخت اور ظالمانہ پالیسیوں کے ذریعے دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 37AA کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ صنعت و تجارت کو تباہ کرے گا۔ اْدھر تاجروں کی جانب سے ہڑتال کا اعلان کیا گیا تو ادھر وزیر خزانہ نے انہیں مذاکرات کے لیے بلالیا، اور تاجر مشروط طور پر مذاکرات کے لیے تیار ہوگئے۔ ان کی طرف سے کہا گیا کہ مذاکرات تو ہوں گے لیکن ہڑتال 19 جولائی کو ضرور ہوگی۔ توقع ہے کہ وزیر خزانہ تاجروں کو مطمئن کرلیں گے اور ہڑتال کی نوبت نہیں آئے گی۔ پہلے بھی ایسا دیکھا گیا ہے کہ طاقتور تنظیمیں حکومت سے اپنے مطالبات اسی طرح منوا لیتی ہیں۔ اس کے برعکس تنخواہ دار طبقات جیسے مزدور، اساتذہ، ڈاکٹرز اور انجینئرز احتجاج کریں تو انہیں پولیس کے تشدد اور شیلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے مطالبات کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔
یہ امر بہرحال خوش آئند ہے کہ حکومت عام آدمی کو سہولت پہنچانے کے اقدامات کر رہی ہے اور معیشت بہتر ہو رہی ہے، لیکن یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جب تک مہنگائی کا براہِ راست بوجھ کم کرنے اور تنخواہ دار طبقے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے، اس معاشی بہتری کے دعوے نامکمل ہی رہیں گے۔ ضروری ہے کہ حکومت ٹیکس اصلاحات اور کاروباری سہولتوں کے ساتھ ساتھ عام شہری کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دے تاکہ معاشی ترقی کے حقیقی اثرات نچلی سطح تک پہنچ سکیں اور عوام اس استحکام سے عملی طور پر مستفید ہو سکیں۔اسکے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی ممکن ہوسکے۔