جھگیوں کی مکین

تحریر: طارق زمان ہنی غورغشتوی

لیزی ( لیزین ) پُورے اَسپتال میں لیزی سُسّت مشہور تھی؛ مگر کام میں اُس کی اتنا چھٹ تھی کہ پلک جھپکنے میں ڈاکٹروں کے دفتروں مریضوں کے وارڈوں اور انتظار گاہوں کی صفائی کر دیتی۔ جب وہ اپنا کام ختم کر لیتی تو ڈاکٹر اور نرسیں اسے کسی نہ کسی کام کو بھیج دیتے ۔برگر لے آؤ، چائے لے آؤ، سیگریٹ لے آؤ ، ایزی لوڈ کرا دو وغیرہ وغیرہ۔ مجال کہ لیزی کی زبان پر انکار کے الفاظ آتے۔ وہ بخوشی کام کر دیتی۔ پچاس پچپن سال کی کمزور جسم دبلی پتلی گہرا سانولہ رنگ خوب صورت نین نقش اور پختہ ارادوں کی مالک لیزی نہ تھکتی نہ کسی سے ناراض ہوتی اسپتال میں تمام عملے کی عزت کرتی۔ اس کی آنکھوں میں ہمیشہ اُمید کی کرن نظر آتی۔ لیزی کی رہائش گاہ اسپتال سے باہر تھوڑا فاصلے پر جھگیوں میں تھی، جہاں نہ بجلی نہ پانی روشنی کے لیے لالٹین استعمال کرتی اور ضرورت کے لیے پانی پڑوسی عورتوں کے ہمراہ قریبی نہر سے بھر لاتی۔ اسی عرصے میں اسپتال میں ایک نئی نرس بھرتی ہو کر آئی، جس کا نام جوزفین تھا مگر جوزی کے نام سے مشہور ہو گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں جوزی نے اسپتال میں اپنا مقام بنا لیا۔ اچھے اخلاق اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں وہ بہت مشہور ہو گئی۔ جوزی کی وجہ سے اسپتال میں آنے والے مریضوں میں اضافہ ہونے لگا۔ اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر لال صاحب جوزی کی کارکردگی سے بہت خوش تھے ۔ کچھ ہی عرصہ میں جوزی ہسپتال انتظامیہ کے لیے مجبوری بن گئی کیونکہ اکثر مریض آتے تو صرف جوزی ہی کا پتہ کرتے وہ نہ ہوتی تو کئی مریض واپس چلے جاتے ۔ ایک دن اچانک اسپتال کے عملے کے ایک آدمی نے آ کر ڈاکٹر لال صاحب کو ایسی خبر سنائی کہ وہ سُن کر پریشان ہو گئے ۔خبر یہ تھی کہ جوزی نے اپنی رہائش جھگیوں میں خاکروبہ لیزی کے ساتھ رکھی ہوئی ہے اور چھٹی کے بعد وہ وہاں چلی جاتی ہے۔ اور کچھ لوگ افواہیں بھی پھیلا رہے ہیں کہ اسپتال کی اہم نرس جھگیوں کی مکین ہے ۔ ڈاکٹر لال کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ اس بات سے ہسپتال کی ساخت کو نقصان پہنچ سکتا ھے ڈاکٹر لال صاحب نے جوزی کو بلایا اور کہا کہ اسے جھگیوں کی رہائش چھوڑنی ہو گی، اس کے بدلے میں اسے اسپتال میں سرکاری رہائش دے دی جائے گی مگر جواب میں جوزی نے جھگیوں میں لیزی کا ساتھ چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس بات پر ڈاکٹر لال صاحب بہت حیران اور پریشان ہو گئے پھر ڈاکٹر لال صاحب نے ایک ترکیب سوجھی اس نے لیزی کو بلایا اور کہا کہ اسےجوزی کو اپنے گھر سے نکالنا ہو گا ورنہ نتائج برے ہوں گے مگر لیزی نے بھی جوزی کو نکالنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جوزی اگر خود جانا چاہتی ہے تو جائے مگر میں اسے نہیں نکالوں گی۔ جوزی نے تو پہلے ہی انکار کیا ہوا تھا اگلے دن ڈاکٹر لال صاحب نے ان کو ڈرانےکے لیے عارضی طور پر نوکری سے نکال دیا تاکہ جوزی جھگیوں کی رہائش چھوڑ دے ۔انھوں نے نوکری تو چھوڑ دی مگر دونوں اسی جگہ جھگیوں میں ہی رہتی رہیں ایک دن بعد اتوار تھا۔ ڈاکٹر لال صاحب اتوار کے دن عبادت کے لیے گرجا کو گئے ۔ وہاں اس کی ملاقات لیزی اور جوزی سے ہوئی وہ وہاں گرجہ میں عبادت کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر لال نے ان سے کہا کہ مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ تم نے ایک دوسرے کے ساتھ کے لیے میری بات نہیں مانی بلکہ نوکری تک چھوڑ دی بہت ہی اصرار کے بعد جوزی نے ڈاکٹر لال صاحب کو کچھ بتایا تو ڈاکٹر صاحب عجیب سی سوچ بچار کے بعد اپنے گھر کو روانہ ہو گئے .اگلے دن جب ڈاکٹر لال صاحب اسپتال اپنے دفتر میں آئے تو انھوں نے سب سے پہلے لیزی اور جوزی کے کام پر آنے کا تحریری حکم جاری کیا اور ساتھ ہی ان دونوں کی ہسپتال میں ایک ساتھ سرکاری رہائش کا حکم بھی دے دیا۔

اگلے دن لیزی اور جوزی دونوں کام پر آ گئیں اور دونوں نے رہائش بھی ہسپتال میں منتقل کر لی۔ ڈاکٹر لال صاحب نے لیزی کو خاکروبہ کی بجائے اپنے دفتر میں چپڑاسن رکھ لیا تھا۔اسپتال کا تمام عملہ ڈاکٹر لال صاحب کے اس اقدام سے بہت حیران تھا۔

ہوا یوں کہ جب ڈاکٹر لال صاحب نے گرجہ میں جوزی سے لیزی کا ساتھ نہ چھوڑنے کی وجہ پوچھی تو جوزی نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا کہ جب میں ایک سال کی تھی تو میرے والد صاحب کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تو میری ماں نے بہت محنت کر کے بڑے لوگوں کے بچوں کے ساتھ مجھے پڑھایا اور کبھی کسی کو نہیں بتایا کہ میں کون ہوں کس کی بیٹی ہوں تا کہ مجھے جھگیوں کی مکین ہونے کی وجہ سے سکول سے نکال نہ دیا جائے ۔ آج میں آپ کی اسپتال میں اس مقام تک پہنچی تو اپنی ماں کی محبت اور محنت کی وجہ سے ۔
ڈاکٹر لال صاحب نے جوزی سے پوچھا تیری ماں قابل رشک ہے وہ رہتی کدھر ہے میں اس عظیم ماں سے ملنا چاہوں گا تو جوزی نے ڈاکٹر لال صاحب کو جواب دیا۔ “لیزی ہی میری ماں ہے”۔​

Comments (0)
Add Comment