آہوں سے گزرتا، سسکیاں لیتا معاشرہ

تحریر: خالد غورغشتی

معزز قارئین! یہ فقط اداکارہ حمیرا کی لاش تو نہ تھی، یہ تو ہمارے چھبیس کروڑ عوام کے اجتماعی ذہنیت اور بے حسی کا پوسٹ مارٹم تھا۔ یہ لاش اُس نظام کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے، جس میں کوئی عورت صرف اس لیے زندگی ہار دیتی ہے کہ وہ تنہا ہے، آزاد ہے، یا شاید صرف عورت ہے۔

جہاں ہر روز چند ٹکروں کی خاطر حوا کی بیٹی ہوس کا نشان بنتی ہو، جہاں ایک طرف تین تین ہزار کے پیزے کھا کر مزے لیے جاتے ہوں اور پڑوس میں پندرہ روپے کی روٹی کے لیے ہمسائے مرتے ہوں، جہاں سال بھر گندم پڑی پڑی ٹپوؤں اور گوداموں میں خراب ہو جاتی ہو اور اردگرد کے لوگ دو روٹی لقمے کے لیے خود کشی پر مجبور ہوں، وہاں حمیرا کی بے گور و کفن لاش کئی مہینے کرائے کے فلیٹ میں پڑی رہے، تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، افسوس اس پر ہے کہ ہمیں تعجب بھی نہیں ہوتا!

ہم نے بچپن میں سُنا تھا کہ اگر کسی کے گھر مرغی گم ہو جائے تو پورا محلہ شور مچاتا ہے، ہر دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے، ہر کونا چھانا جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک زندہ انسان، ایک عورت، ایک بیٹی، کئی ماہ تک غائب رہی، اور اس کے اپنے والدین، رشتہ دار، احباب، سب بے خبر! یہ یتیمی سے بھی بدتر سلوک ہے۔ افسوس کہ ہم نے انسانوں کو جانوروں بلکہ پرندوں سے بھی کمتر سمجھنا شروع کر دیا ہے۔

اسلام سوال اٹھاتا ہے:

” اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی؟” سورۃ التکویر، آیات 8–9

یہ آیت آج بھی ہمارے گھروں میں بولتی ہے، چیختی ہے، دہائیاں دیتی ہے — لیکن ہم، شاید، سُننے سے قاصر ہو چکے ہیں۔
غلطی تو کسی سے بھی ہو سکتی ہے، کیوں کہ انسان “نسیان” سے نکلا ہے، جو بھولنے والا ہے۔ مگر ہم نے عورت کی خطا کو جرمِ عظیم بنا دیا ہے۔

ایک بیٹی اگر غلطی سے سوشل میڈیا، شوبز یا کسی کے تعلق میں بہک جائے تو ہم اسے بے غیرتی کی علامت قرار دے کر جائیداد سے عاق کر دیتے ہیں، خاندان سے نکال دیتے ہیں اور دنیا کے طعنوں کے سامنے لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔

مردوں کے گناہ چھپانے کو غیرت اور عورت کے خطا پر سزا۔ یہ دہرا معیار کب ختم ہو گا؟ مرد اگر چار چار نکاح کرے، راہ چلتی عورت کو چھیڑے، جنسی ہراسانی میں ملوث ہو، تو معاشرہ اسے “مرد” سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے لیکن اگر عورت صرف سٹیٹس پر اپنی تصویر لگا دے، اگر وہ معاشی آزادی کے لیے باہر نکلے یا وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے کوشش کرے، تو ہم اس پر فتوے، فیصلے، اور تعصب کی صلیب تھوپ دیتے ہیں۔

” آج کی عورت نہ جائے پیدائش میں با اختیار ہے، نہ جائے بقا میں۔ اسے ہر جگہ صرف خود کو ثابت کرنا ہے اور جب وہ ثابت ہو جائے، تب بھی وہ شک میں گھری رہتی ہے۔” سیمون دی بووا۔

یہ وہ معاشرہ ہے، جہاں بیٹی کے لیے واپسی کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ ہم اُس سے خونی رشتہ ہونے کے باوجود وہ رعایت نہیں دیتے جو ایک اجنبی کو دے دیتے ہیں۔ ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ گناہ سے نفرت کریں، گناہ گار سے نہیں۔ سچی توبہ، سچی ندامت کا آنسو، یہ انسان کو پاک کر دیتا ہے مگر ہم اپنے فیصلوں میں معافی کا تصور بھول چکے ہیں۔

نفسیاتی طور پر اس بے ربط اور ظالم رویے نے ہماری عورتوں کو “learned helplessness” کا شکار بنا دیا ہے۔ وہ یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ ہر کوشش، ہر چیخ، ہر التجا بے فائدہ ہے اور وہ خاموشی کو مقدر مان کر مر جاتی ہیں، چاہے جسم سے یا روح سے۔

کاش ہم اس مقام پر آ سکیں جہاں بیٹی کی لغزش پر گھر کا دروازہ بند نہ ہو، بلکہ اس کے لیے توبہ، مکالمے اور واپسی کی گنجائش موجود ہو۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ اصلاح سزا سے نہیں، محبت، برداشت، اور قبولیت سے ہوتی ہے۔

ورنہ حمیرا کی لاش آخری نہ ہو گی۔ کل ایک اور بیٹی خاموشی سے مر جائے گی اور ہم ہمیشہ کی طرح فقط افسوس کا ایک سٹیٹس لگا کر آگے بڑھ جائیں گے۔

Comments (0)
Add Comment