صدا بصحرا
رفیع صحرائی
پتنگ بازی پر زیرو ٹالرنس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھاتی ڈور و پتنگ بازی کے خاتمے کے لیے پنجاب پولیس صوبہ بھر میں اِن ایکشن ہے۔ پنجاب پولیس نے لاہور سمیت صوبہ بھر میں اینٹی کائٹ فلائنگ ایکٹ کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ جس کے خاطر خواہ نتائج نکلے ہیں۔ اب شہریوں کو اچھی طرح احساس ہو گیا ہے کہ پتنگ بازی پر معافی نہہں ملے گی اس لیے وہ خود بھی محتاط ہو گئے ہیں۔ پتنگ بازی روکنے کے لیے پنجاب پولیس کی سنجیدگی کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق رواں سال لاہور سمیت صوبہ بھر میں انسداد پتنگ بازی ایکٹ کی خلاف ورزی پر 4425 ملزمان گرفتار اور4341 مقدمات درج کیے گئے۔ 4 لاکھ 69 ہزار 892 پتنگیں اور 17 ہزار 671 چرخیاں برآمد کی گئیں جبکہ3871 کیسز کے چالان جمع کروائے گئے۔
صرف صوبائی دارالحکومت لاہور میں 1206 ملزمان گرفتار، 1175 مقدمات درج، 27612 پتنگیں اور 1393 ڈور چرخیاں برآمد کی گئیں۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے پولیس فورس کو حکم دے رکھا ہے کہ پتنگ بازی ممانعت ترمیمی بل کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے آر پی اوز، سی پی اوز، ڈی پی اوز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ پتنگ بازوں، پتنگ فروشوں اور مینوفیکچررز کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی لائی جائے۔
ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ پتنگ بازی کی جان لیوا سرگرمی کی ہرگز اجازت نہیں، خونی دھندے میں ملوث افراد کے خلاف زیرو ٹالرنس اپنائی گئی ہے۔ انہوں نے دھاتی ڈور اور پتنگوں کے آن لائن کاروبار میں ملوث عناصر کو بھی قانون کی گرفت میں لانے کی سخت ہدایات جاری کر دی ہیں۔ آئی جی پنجاب نے والدین سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس خونی کھیل سے دور رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عام شہریوں سے بھی کہا ہے کہ وہ کسی بھی مقام پر پتنگ بازی کی صورت میں 15 پر اطلاع دے کر ذمہ داری کا ثبوت دیں۔
پتنگ بازی کی روک تھام کے لیے پنجاب پولیس کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں۔ چند سال پہلے تک صورتِ حال انتہائی سنگین تھی۔ روزانہ قیمتی جانیں اس خونی کھیل کی بھینٹ چڑھ جاتی تھیں۔ جہاں پتنگ اڑانے کے لیے استعمال کی گئی دھاتی تار سائیکل اور موٹر سائیکل سواروں کے گلے کاٹ دیتی تھی وہیں پر یہ ڈور پتنگ کٹنے کے بعد بجلی کی ننگی تاروں پر گر کر پتنگ بازوں کو بھی بجلی کے کرنٹ سے موت کے منہ میں پہنچا دیتی تھی۔
آغاز میں پنجاب میں پتنگ بازی موسمِ بہار میں ایک تہوار منا کر کی جاتی تھی۔ بسنت کا تہوار پہلے پہل مادھو لعل حسین کے مزار اور میلے تک ہی محدود تھا۔ پھر اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا اور یہ لاہور سے نکل کر دیگر شہروں میں بھی پھیل گیا۔ قصور شہر میں بسنت کا تہوار بہت بڑا فیسٹیول بن گیا تھا جہاں ہر سال 19 فروری کو بسنت بڑے تزک و احتشام سے منائی جاتی۔ اس کے بعد پنجاب کے ہر بڑے چھوٹے شہر اور قصبے میں پھیل کر بسنت نے قومی تہوار کی شکل اختیار کر لی۔ البتہ ہر شہر میں بسنت الگ الگ تاریخوں میں منائی جاتی۔ دن کے علاوہ رات کے وقت بیم لائٹوں کی مدد سے فضا بقعہ نور بنی ہوتی۔ اونچی آواز سے موسیقی کے سُر بکھرے ہوتے۔ نوجوان، بوڑھے، بچے، مرد و خواتین سبھی بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کے کھیل میں دلچسپی سے حصہ لیتے۔ جونہی کوئی پتنگ کٹتی فضا بو کاٹا کے فلک شگاف شور سے بھر جاتی۔ ڈھول کی تھاپ پر رقص کر کے خوشی کا اظہار کیا جاتا۔ بسنت کے موقع پر خصوصی پکوان پکائے جاتے۔ ایک طرح سے اس تہوار کے ذریعے زندگی کی تلخیوں اور مصائب کا کتھارسس ہو جاتا تھا۔ ہر طرف رنگ و نور اور خوشبوئیں بکھیر کر ان میں سے خوشیاں کشید کی جاتی تھیں۔
پھر ہمارے عمومی رویّوں نے اس کھیل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سپورٹسمین سپرٹ کی جگہ انا، ضد اور تکبر نے لے لی۔ اپنی پتنگ کٹوانا سبکی اور توہین سمجھا جانے لگا۔ پتنگ بازی میں مہارت کی جگہ ناجائز ذراٸع کا استعمال کر کے جیت ہی کو سب کچھ سمجھا جانے لگا۔ پہلے پہل پتنگ اڑانے والی ڈور پر سریش اور کانچ کی تہہ چڑھا کر اسے تیز کیے جانے سے اس کا آغاز ہوا۔ اسے مانجھا لگانا کہتے تھے۔ یہ ڈور تلوار کی طرح تیز ہوتی تھی۔ ہاتھوں اور گردن کو زخمی کر دیتی تھی مگر بہر حال پیچ لڑاتے وقت کٹ بھی جاتی تھی۔ انا کی مکمل طور پر تسکین نہ ہوتی تھی چنانچہ مانجھے والی ڈور کی جگہ دھاتی ڈور نے لے لی اور یوں ایک تفریحی کھیل خونیں کھیل میں تبدیل ہو گیا۔ دھاتی ڈور بجلی کی تاروں سے ٹکرا کر نہ صرف الیکٹرک شاک کا باعث بننے لگی بلکہ بجلی کے بریک ڈاٶن کا سبب بھی بننے لگی۔ ٹرانسفارمر جلنے لگے۔ دھاتی ڈور نے قاتل ڈور کا روپ اختیار کر لیا۔ راہ گیروں خصوصاً موٹر ساٸیکل سواروں کے گلے کٹنے لگے اور مجبوراً حکومت کو پتنگ بازی پر پابندی لگانی پڑی۔
یہ ظالم پتنگ باز چند گھنٹوں کے کھیل سے لطف اندوز ہونے کے لیے اور ڈور ساز اپنی کمائی کی خاطر قیمتی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ انہیں کڑی سے کڑی سزا دینا ضروری ہے۔ شاباش پنجاب پولیس!