دل شکستہ ہے ۔ایک عہد تمام ہوا ۔۔۔

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

کبھی کبھی کوئی دکھ کی خبر دل کے نہاں خانے میں ایسا زلزلہ برپا کر دیتی ہے اور روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے کہ الفاظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، اور آنکھیں خاموش نوحہ گر بن جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک خبر آج صبح میرے بچپن کے دوست ،ساتھی،ہم جماعت، اور ہم راز رفیق  حکیم محمد افتخار حسین اظہر چشتی سجادہ نشین خانقاہ چشتیہ ڈیر نواب صاحب کی وفات کی صورت میں ملی ۔ دل شکستہ ہے کہ ایک عہد تمام ہوا ۔۔۔آج دل ایک بہت ہی گہرے صدمے سے دوچار ہے ۔وہ ہمارے علاقے کے ایک سایہ دار درخت تھے جو  مجھ جیسے بے شمار لوگوں کو روتاچھوڑ کر رخصت ہوے ۔یہ صرف ایک فرد کی اس دنیا سے رخصتی  نہیں بلکہ ایک روحانی ،علمی ،طبی اور ادبی عہد کا خاتمہ ہے ۔ ان کی شخصیت صرف کتابوں ،تسبیح اور مجلس ذکر تک محدود نہ تھی  وہ علم کے امین ، اخلاص کے چراغ اور مخلوق خدا کے سچے خیر خواہپ تھے ۔ان کے اندر خانقاہی وقار بھی تھا ،درویشانہ انکساری بھی ،اور علمی وروحانی گہرائی بھی ۔۔وہ بولتے تو دلوں پر دستک دیتے ۔۔لکھتے تو روح کو بیدار کر دیتے ۔۔وہ  اپنی ذات میں صرف ایک فرد نہیں  بلکہ ایک ادارہ تھے ۔حضرت حکیم  صاحب سجادہ نشین خانقاہ چشتیہ کے منصب پر فائز تھے سچے عاشق رسول و اہل بیت اور وہ خانقاہی نظام کے سچے نمائندہ ،مخلوق خدا  کے سچے خادم  اور علم وادب کے عاشق تھے ۔ان کی خانقاہ علم و عشق ،سادگی و خدمت ،ذکر وفکر کا ایسا مرکز ہے جہاں نہ صرف روحانی تسکین ملتی بلکہ فکری بالیدگی بھی حاصل ہوتی ۔وہ ان نادر شخصیات میں سے تھے جن کی نگاہ میں اخلاص ،زبان میں تاثیر اور عمل میں برکت تھی ۔علم وادب ،حکمت اور روحانیت ان کے رگ وپے میں رواں تھی ۔فارسی عربی اور اردو پر ان کی گفتگو ایسی تھی کہ استاد بھی شاگرد بن کر سنتے تھے ۔ایک باوقار اور مستند طبیب کے طور انہوں نے علاقے بھر کے ہزاروں لوگوں کو جسمانی و روحانی بیماریوں سے شفا بخشی اور ہزاروں دلوں کو اپنے حسن اخلاق سے فتح کیا ۔ان کے والد گرامی  جو خود بھی علاقے کے معروف معالج اور دینی و تاریخی کتب کے صاحب طرز مصنف تھے ، اور علی گڑھ  کالج سے گریجویٹ بھی   تھے نے جس چراغ کو روشن کیا ،وہ اظہر چشتی کی صورت میں پورے ماحول کو منور کرتا رہا ۔ان کی خدمت خلق ،شفا یابی کے میدان میں مہارت اور دلوں کی اصلاح کے لیے کیا گیا کام ایک پو ری نسل  کی زندگیوں پر گہرے نقوش چھوڑ گیا ہے ۔ان کے اشعار میں عشق حقیقی کی حرارعت اور فکر و دانش کی روشنی تھی ،دبیر الملک نقوی احمدپوری مرحوم جیسے بلند پایہ شاعر کے فیض سے لکھی گئی تحریریں آج بھی دلوں کو جلا بخشتی ہیں ۔ان کی علمی نشستیں ،ان کی نعتیہ شاعری ،ان کے فارسی اشعار اور قرآنی تفاسیر سب کچھ یادوں کا سرمایہ بن چکا ہے ۔اور وہ اپنے ہزاروں شاگردوں ،اور چاہنے والوں کو   روتا چھوڑ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں ۔لیکن ایسے لوگ جو اپنی زندگی خدمت خلق کے لیے وقف کر دیتے ہیں   ہمیشہ کے لیے چلے نہیں جاتے  بلکہ وہ دعاوں ،یادوں اور تعلیمات کی شکل میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ان کا شفا خانہ غریبوں کے لیے ہمارے علاقے میں کسی نعمت سے کم نہ تھا ۔

ایسے نایاب اور غیر متنازعہ شخصیت کے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کی وفات  صرف ذاتی دکھ نہیں بلکہ ایک روحانی ،ادبی اور علمی خلا ہے  جو مدتوں پر نہیں ہو سکے گا ۔میرے لیے یہ رشتہ محض دوستی ،عقیدت یا علم کا ہی نہ تھا  ۔یہ ایک طویل ذاتی ،خاندانی ،اور جذباتی تعلق بھی تھا ۔ہماری دوستی بچپن کی خاموش مسکراہٹوں اور شرارتوں سے شروع ہوئی  پھر ساتھ ساتھ پڑھتے ہوۓ  برسوں پر محیط روحانی اور قلبی رشتے میں بدل گئی  ۔میرے خاندان  بھرکے افراد کا ان کے خاندان سے تعلقات، ان کے والد بزرگوار سے میرے بڑوں کی نسبت ،اور پھر ہمارے درمیان کی والہانہ قربت ،ایک ایسا سلسلہ  تھا جسے صرف محبت ،عزت اور اخلاص ہی پرو کر رکھ  سکتا ہے ۔ہر خوشی اور غم میں ان کی موجودگی ہمارے لیے باعث برکت و تسلی ہوا کرتی تھی ۔ ہر مشکل لمحے میں کام آنے والے   حکیم صاحب ہمارے خاندان کے مشیر ،معالج اور محسن رہے بلکہ محبت ،شفافیت اور خلوص کا ایک ایسا استعارہ بن گئے جو زمانے کی گرد سے بھی ماند نہ پڑا ۔ان کی مجلسوں میں بیٹھنا ،ان کی دعائیں لینا ،ان کے اشعار سننا ،  گویا ایک روحانی روحانی غسل ہوتا تھا ۔انہوں نے علم سکھایا ،محبت بانٹی ،زخموں پر مرہم رکھا اور دعا کی صورت میں ہم پر سایہ کئے رکھا ۔آج وہ چلے گئے لیکن ان کی خوشبو ،ان کی باتیں  ،ان کی دعائیں  اور ان کی خانقاہ  اب بھی زندہ ہیں ۔ وہ ہمیں چھوڑ تو ضرور گئے ہیں   مگر اپنے پیچھے  روشنی کا ایک کارواں چھوڑ گئے ہیں ۔ایسی ہستی سے ذاتی اور خاندانی تعلق کا ذکر کرنا دراصل ایک روحانی ورثے کی گواہی دینا ہے ۔ان کے طویل خدمات پر مجھ جیسے ناچیز کا  یہ ادنیٰ سا خراج عقیدت اور محبت کا اظہار شاید ناکافی ہے کیونکہ ان کی ہر دلعزیز شخصیت اور خدمات میرے الفاظ سے کہیں زیادہ بلند ہیں ۔میں جب بھی ڈیرہ نواب صاحب جاتا  ان کی زیارت کا شرف حاصل کرتا ان کی امامت میں جمعہ کی نماز ادا کرتا ۔ان کی صحبت میں بیٹھنا  گویا صدیوں کے تجربے ،الفاظ کی لطافت اور باطن کی روشنی سے فیضیاب ہونا تھا ۔میرے دوست سعید چشتی مرحوم کہا کرتے تھے کہ افتخار اظہر جیسے دوست کے بغیر ڈیرہ نواب صاحب محض ایک  ویرانہ سا لگتا ہے۔میں خود یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جتنا میں نے ان کی لائبریری سے پڑھا اور جو کچھ میں نے ان کی صحبت میں رہ کر سیکھا  وہ شاید اور کہیں سے ممکن نہ تھا ۔بچپن سے صبح کی نماز کے بعد اما م بخش  کے ہوٹل  یا پھر حکیم کے ہوٹل کے کسی کونے میں ہماری  یادگار نشست ہوا کرتی تھی جہاں  شیشے کے گلاس میں چاۓ کے کپ کے اوپر رکھا ایک رس کیک  کا ذائقہ کبھی نہیں بھولتا  اور رات کی نشست احمدپور شرقیہ منیر شہید چوک پر امام ہوٹل میں نقوی احمدپوری مرحوم جیسی بلند پایہ شخصیت کے ساتھ ہوتی یا پھر میں سعید چشتی اور اظہر صاحب ڈیرہ نواب صاحب کے اسٹیشن پر شاہ جی کے ہوٹل پر رات گئے بیٹھے اپنی اپنی شاعری سے خود ہی لطف اندوز ہوتے تھے ۔زندگی کے بے شمار یادگار واقعات اب سنہری یادیں بن کر رہ گئے ہیں ۔یہ وہی وقت تھا جب بزم نقوی کی بنیادی  رکھی گئی   تو نقوی صاحب کے   یہ ہونہار شاگرد بزم نقوی کی روح رواں سمجھے جاتے تھے ۔حکیم صاحب کا مجموعہ شاعری اور کئی کتب شائع ہو چکی ہیں ۔ ان کا شعری مجموعہ “حریم شوق ” ان کی ادبی صلاحیتوں اور نعتیہ کلام “چراغ نور مبیں ہے روشن” ان کے سچے عاشق رسول ہونے کی  واضح دلیل ہیں ۔میرے اکثر کالموں ان کا اور سعید چشتی کا ذکر ہونا اس بات  کی گواہی ہے کہ ہم تینوں دوستوں کی دوستی  اور طویل ترین رفاقت شاید ہمالیہ سے بھی بڑی تھی  بچپن ،جوانی اور بڑھاپا ساتھ ساتھ گزرا۔کئی سال سے صاحب فراش  حکیم صاحب کی عیادت کرنے کی توفیق ملنا بھی کسی سعادت سے کم نہیں ہے ۔جو مجھے ہمیشہ  حاصل رہی ۔ہمارے خاندان اور اس علاقے کے ان کے بے شمار چاہنے والوں کو ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی ۔

اللہ کریم ان کے درجات بلند فرماۓ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماۓ ان کے مزار کو فیضان کا مرکز بناۓ اوران کے علمی ،روحانی اور طبی ورثے کو جاری رکھے اور ہمیں ان کی محبت اور تعلیمات کو سنبھالنے کی توفیق عطا کرے ٔ  امین !اللہ ان کی اولاد کو توفیق دے کہ وہ  ان کے مزار کو اپنے دلوں کی خانقاہ سمجھیں اور ان کی تحریروں کو اپنی رہنمائی اور ان کی زندگی کو اپنی مشعل راہ بناۓ رکھیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون !

Comments (0)
Add Comment