پاکستان میں مہنگائی کا طوفان اب صرف بازاروں، پٹرول پمپس یا فارمیسیز تک محدود نہیں رہا بلکہ ہر ماہ کی 10 تاریخ کو جب بجلی کا بل دروازے پر دستک دیتا ھے تو عام پاکستانی کا دل دہل جاتا ھے۔ ایک طرف مہنگے یونٹ، دوسری طرف ڈیوٹی، تیسری جانب ہر قسم کے ٹیکسز، اور اوپر سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ۔۔۔ اب یہ بل بجلی کا نہیں بلکہ ایک عذاب نامہ بن چکا ھے۔ وہ بل جس میں کبھی صرف میٹر ریڈنگ اور چند روپے ہوا کرتے تھے، آج ان بلوں میں سے پچیس سے تیس فیصد صرف ٹیکس ھے۔ یہ وہ سچ ھے جو ہر صارف جانتا ھے مگر بولنے سے قاصر ھے۔
ماہ جولائی میں اگر کسی صارف کا بل 57000 روپے آتا ھے تو اس میں کم از کم 15000 روپے مختلف ناموں کے ٹیکسز، سرچارجز اور فیسوں کی صورت میں شامل ہوتے ھیں۔ جنرل سیلز ٹیکس جو 15 فیصد ھے، ہر بل پر لاگو ھے۔ بجلی کے یونٹ کم ھوں یا زیادہ، یہ ٹیکس لازمی ھے۔ ایک 57000 کے بل میں 8550 روپے صرف جی ایس ٹی کی مد میں کٹتے ھیں۔ حکومت کے نزدیک یہ نارمل بات ھے، مگر صارف کے لیے یہ ظلم ھے۔ انکم ٹیکس، جسے ود ہولڈنگ ٹیکس کہا جاتا ھے، وہ بھی 7.5 فیصد کے حساب سے اس بل پر لاگو ھے۔ اگر آپ فائلر نہیں تو 4275 روپے مزید کٹ جائیں گے۔ اس وقت ملک میں فائلر بننے کا مطلب صرف ٹیکس سے بچاؤ ھے، ورنہ سہولت کوئی نہیں۔
پھر بات کرتے ھیں بجلی کی ڈیوٹی کی، جو صوبہ پنجاب میں 1.5 فیصد سے 2 فیصد کے درمیان ھے۔ یہ الگ سے ہر یونٹ پر چارج ھوتی ھے، اور عوام کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل ھے کہ اتنے ٹیکسز کے باوجود حکومت کو مزید کیا درکار ھے۔ اس 57000 کے بل پر 855 روپے بجلی کی ڈیوٹی کے نام پر لے لیے جاتے ھیں۔ صارف یہ سوال اٹھاتا ھے کہ وہ بجلی کے بل کی ادائیگی کر رہا ھے، پھر اس پر ڈیوٹی کیوں؟ مگر کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ھے۔
فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، جسے عرف عام میں ایف پی اے کہا جاتا ھے، وہ ہر مہینے مختلف ھوتی ھے۔ اگر بجلی تیل سے بنائی گئی ھے اور تیل مہنگا ھے تو ایف پی اے بڑھ جاتا ھے۔ صارف کا قصور کیا ھے؟ مگر پھر بھی اس کے بل میں 700 سے 1000 روپے اس مد میں ڈال دیے جاتے ھیں۔ یعنی بجلی آپ کے گھر پہنچی، اس پر ٹیکس لگا، پھر اس پر ایک اور چارج، پھر اس چارج پر بھی ٹیکس، یہ سلسلہ ختم نہیں ھوتا۔
ٹی وی لائسنس فیس، جو 35 روپے ھے، وہ بھی بل میں شامل ھے۔ اگر گھر میں ٹی وی نہ بھی ھو، یا PTV کبھی نہ دیکھا ھو، تب بھی یہ فیس لازمی ھے۔ سوال یہ ھے کہ پی ٹی وی کی اپنی کارکردگی کیا ھے؟ کیا عوام کو اس چینل سے وہ فائدہ مل رہا ھے جس کا وہ ہر ماہ بل میں قیمت چکا رہے ھیں؟ جواب نفی میں ھے۔
فردر ٹیکس بھی ایک الگ مد ھے جو 3 فیصد کی شرح سے نان فائلر یا غیر رجسٹرڈ کمرشل صارفین پر لگایا جاتا ھے۔ اگر اس صارف کا تعلق کسی کاروبار سے ھے اور وہ رجسٹرڈ نہیں، تو 1710 روپے مزید کٹ جائیں گے۔ یوں 57000 کا بل کم از کم 17000 روپے صرف حکومتی خزانے میں ٹیکسز کی مد میں چلا جاتا ھے، جبکہ بجلی کی اصل قیمت تقریباً 40000 روپے بھی نہیں بنتی ھے۔
عوام سوال کرتے ھیں کہ ایک ایسا ملک جہاں روزگار نہیں، مہنگائی آسمان پر، اور آمدن صفر کے برابر ھے، وہاں اتنے بھاری ٹیکس کیسے جائز ھیں؟ کیا یہ بجلی کی قیمت ھے یا حکومتی نااہلی کا بوجھ جو عوام کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ھے؟ کیا حکومت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ آمدن نہیں بچا؟ بجلی کے بل کو ٹیکس کا ذریعہ بنا دینا کہاں کا انصاف ھے؟
ایک اور تلخ حقیقت یہ بھی ھے کہ بجلی نہ استعمال کرنے پر بھی صارف کو فکسڈ چارجز ادا کرنا پڑتے ھیں۔ یعنی اگر کسی نے پورے مہینے بجلی نہ چلائی ہو، پھر بھی بل آئے گا۔ کیونکہ میٹر رینٹ، ٹی وی فیس، ڈیوٹی، اور ٹیکسز اپنی جگہ قائم ھیں۔ صارف کہتا ھے کہ میں تو بجلی استعمال نہیں کر رہا، پھر یہ بل کیسا؟ مگر اس کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ھے۔
اگر ان تمام چارجز کو فیصدی حساب سے دیکھا جائے تو 57000 روپے کے بل میں تقریباً 30 فیصد سے زائد رقم صرف ٹیکسز پر مشتمل ھے۔ مطلب یہ کہ حکومت عوام سے بجلی نہیں، بلکہ بجلی کے نام پر ٹیکس وصول کر رھی ھے۔ جو عوام کے ساتھ فراڈ ھے یہ وہ سچ ھے جس پر برسراقتدار پر مقدمہ درج ھونا چاہیے جس کی گواھی ہر صارف کا بل خود دیتا ھے۔
آج کل کئی گھروں میں صورتحال یہ ھے کہ والدین بچوں کو اسکول بھیجنے سے پہلے یہ سوچتے ھیں کہ بجلی کا بل کیسے بھرنا ھے۔ بعض اوقات تو ایسے واقعات بھی دیکھنے کو ملے ھیں کہ لوگ بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے قرض لیتے ھیں۔ بازاروں میں ایسے لوگ بھی ملتے ھیں جو صرف بل ادا کرنے کے لیے سونا یا موبائل گروی رکھوا دیتے ھیں۔ یہ کیسا نظام ھے جو عوام کو بنیادی سہولت کی ادائیگی کے لیے ذلت سے گزار رہا ھے؟
حکومت کو سوچنا ھو گا کہ وہ بجلی کو ٹیکس جمع کرنے کا ذریعہ نہ بنائے۔ اگر ٹیکس جمع کرنے ھیں تو وہ آمدن پر لگائے جائیں، استعمال پر نہیں۔ بجلی ایک بنیادی سہولت ھے، یہ کوئی پرتعیش شے نہیں۔ اس پر لگنے والے بھاری ٹیکس عوام کے ساتھ ناانصافی ھے۔ جب تک حکومت بجلی کے بل سے غیر ضروری چارجز ختم نہیں کرتی، تب تک عوام کا اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ھے کہ حکومت بجلی چوری پر قابو نہیں پا رہی، مگر جو صارف ایمانداری سے بل دیتا ھے، اسی پر سارا بوجھ ڈال دیا گیا ھے۔ بجلی چور خوش، بل ادا کرنے والا پریشان۔ کیا یہ ہی انصاف ھے؟ اگر بجلی چوری روک لی جائے تو شاید حکومت