بلوچستان بیگناہ پنجابیوں کا قتل عام

آج کا اداریہ

بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے پنجاب کے 9 مسافروں کی لاشیں پنجاب پہنچیں تو گھر گھر میں کہرام مچ گیا۔ ہر زبان پر یہی تذکرہ۔ ہر آنکھ اشکبار تھی
حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے ان میں دو بھائی بھی شامل تھے جو کہ اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لیے کوئٹہ سے دنیا پور جارہے تھے۔
گزشتہ جمعہ کی شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب کوئٹہ سے پنجاب جانے والے دو مسافر بسوں کو ضلع ژوب کے علاقے سرہ ڈھاکہ کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے روکا تھا جن میں سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 مسافروں کو اتارا گیا تھا۔
ا بتایا گیاکہ ’ 9 افراد کو بسوں سے اتارنے کے بعد ان کو ایک نالے میں لے جایا گیا تھا جہاں سب کو گولیاں ماری گئی تھی
اس واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی دو ویڈیوز کے مطابق ان بسوں میں سے ایک کا ڈرائیور یہ بتا رہا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے شاہراہ کو بند کر رکھا تھا۔
ڈرائیور کے مطابق مسلح افراد نے ایک بس سے دو مسافروں کو جبکہ دوسرے بس سے 7 مسافروں کو اتارکر لے گئے۔
ایک اور ویڈیو میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک مسافر بتا رہا ہے کہ مسلح افراد نے بس میں مسافروں کی شناختی کارڈ باری باری دیکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ بس کی فرنٹ کی سیٹوں پر بیٹھے تھے۔ مسلح افراد نے میرا شناختی کارڈ کو دیکھا لیکن مجھے چھوڑ دیا۔‘
لسانی اور علاقائی بنیاد پر قتل وغارت خاص طور پر بسوں کو روک کر اور شناختی کارڈ سے شناخت کرکے مخصوص افراد کو الگ کرنے اور گولیوں کا نشانہ بنانے کے واقعات میں پچھلے کچھ عرصہ کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ اس سال فروری میں مسلح افراد نے ضلع بارکھان میں پنجاب جانے والے سات افراد کو بس سے اتار کر قتل کر دیا‘ جبکہ مئی میں کوئٹہ تفتان روڈ پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے چار ٹرک ڈرائیوروں کو قتل کر دیا گیا۔ گزشتہ برس اپریل میں دو مختلف واقعات میں نو افراد کو نوشکی کے قریب ایک بس سے اتار کر قتل کیا گیا‘ جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو مزدور کیچ کے علاقے میں گولیوں کا نشانہ بنے۔ گزشتہ سال مئی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات افراد کو گوادر کے قریب قتل کر دیا گیا جبکہ اگست میں بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں دہشت گردوں نے 23 مسافروں کو ٹرکوں اور بسوں سے اتار کر قتل کر دیا۔ اس سال مارچ میں جعفر ایکسپریس پر دہشت گردانہ  حملہ ان کے علاوہ ہے‘ جس میں 25 مسافر اور ٹرین کا ڈرائیور جاں بحق ہوئے۔ دہشت گردی کے مسلسل واقعات بلوچستان میں امن وامان کی تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں‘ جس کا سدباب کرنے کیلئے مؤثر اور پائیدار اقدامات کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد حکومتِ بلوچستان اور وفاقی حکام مذمتی بیان جاری کرتے اور دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عزم دہراتے ہیں مگر کچھ ہی عرصہ بعد پہلے سے ملتا جلتا دہشت گردی کا نیا واقعہ چند مزید گھروں کے چراغ گل کر دیتا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے سبھی واقعات کی ذمہ دار ایک بھارتی سپانسرڈ دہشت گرد تنظیم ہے۔ صوبائی اور لسانی بنیادوں پر دہشت گردی کے پیچھے فتنہ الہندوستان کا مقصد پاکستان میں صوبائی اور لسانی بنیادوں پر تناؤ پیدا کرنا ہے مگر پاکستان کے محب وطن عوام تشدد اور تقسیم کی اس حکمت عملی کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ دہشت گردوں کا ہدف اگرچہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد تھے مگر اس دہشتگردی کا مقصد پاکستان کے سماج میں دراڑ ڈالنا اور عوامی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستا ن کے دشمنوں کی اس چال کو سمجھنا قومی یکجہتی کیلئے ناگزیر ہے۔ فتنہ الہندوستان کی دہشتگردی کے مقابلے میں ہمیں ایک مضبوط قو م کے طور پر کھڑے ہونے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ سکیورٹی کے انتظام کو بہتر بنانے کی ضرورت بھی ہے۔ ہر چند ماہ بعد بلوچستان سے پنجاب آنے والی بسوں کو روک کر مسافروں کے قتل کے واقعات کا سلسلہ اسی صورت رک سکتا ہے۔ شاہراہوں پر سکیورٹی چیک پوسٹیں‘ بسوں اور ٹرکوں کو سکیورٹی حصار میں کانوائے کی صورت بلوچستان کی حدود سے لانا اور لے جانا اس سلسلے میں ایک بہتر حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ یا اس سے بہتر حکمت عملی جو مسافروں کی جان و مال کی حفاظت یقینی بنائے‘ اختیار کی جانی چاہیے ۔ خطرے کی نوعیت واضح ہونے کے بعد سکیورٹی اداروں کیلئے اس سے نمٹنے کی حکمت عملی ایسی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ بادی النظر میں ضرور کہیں نہ کہیں کوتاہی ہو رہی ہے جس کا فائدہ بھارتی سپانسرڈ دہشت گرد اٹھاتے اور حملے کرتے ہیں۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ بلوچستان سے پنجاب کی طرف آنے والی بسوں کیلئے دن کے اوقات میں بلوچستان کی حدود سے نکلنا لازمی قرار دیا جائے اور ان شاہراہوں پر خصوصی نگرانی کا کڑا بندوبست کیا جائے۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد مذمتی بیان اور دہشت گردوں کو کچل دینے کی نعرہ بازی اپنی جگہ مگر اس سے زیادہ ضروری ہے کہ سکیورٹی کے مؤثر اقدامات سے دہشت گردی کا صفایا کیا جائے‘ شاہراہوں کو محفوظ بنایا جائے اور عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
صدر مملکت آسف علی زرداری ‘ وزیراعظم شہبازشریف اور وزیر داخلہ محس نقوی نے دہشت گردی کے اس واقعے کی مذمت کرتے ہو ئے واقعے کو را کی مدد سے چلنے والے بلوچ انتہا پسند مٹی بھر عناصر کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے
واقعات کے بعد اس قسم کے بیانات ہم سنتے ہی رہتے ہیں تاہم حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ
دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد مذمتی بیان اور دہشت گردوں کو کچل دینے کی نعرہ بازی اپنی جگہ مگر اس سے زیادہ ضروری ہے کہ سکیورٹی کے مؤثر اقدامات سے دہشت گردی کا صفایا کیا جائے‘ شاہراہوں کو محفوظ بنایا جائے اور عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے

Comments (0)
Add Comment