مائنس،پلس کا تماشا

جمع تفریق۔۔ناصر نقوی

پاکستانی سیاست میں ،،مائنس پلس ،،کا کھیل 1947 سے جاری ھے بابا ئےقوم حضرت قائد اعظم محمد علی جنا ح کی بیماری اور زیارت میں علاج معالجہ کے دوران ملک کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان جب عیادت کے لیے زیارت گئے اور مادر ملت فاطمہ جناح نے ، ان کی پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا تو اس وقت قائد نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اخراجات اپنی جیب سے ادا کر کے ہمشیرہ سے شکوہ کیا کہ تمہیں اس ضیافت کا انتظام نہیں کرنا چاہیے تھا مطلب یہ تھا کہ،، تناول ما حاضر ،،کافی تھا جو نواب صاحب کی قسمت میں ہوتا وہ انہیں مل جاتا، جس کے جواب میں محترمہ کا کہنا تھا ملک کا وزیراعظم میرے بھائی کی عیادت اور مزاج پرسی کے لیے آ یا تو اچھی دعوت میرا فرض تھا ،بابائے قوم کا فرمان تھا ،،یہ میری خیریت معلوم کرنے نہیں آ یا ،یہ تو خود دیکھنا چاہتا تھا کہ میں ابھی مرا نہیں؟ یوں سمجھو کہ اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ میں مزید کتنے دن زندہ رہوں گا ،،مطلب اسے مجھے,, مائنس,, کرنے کی فکر لاحق ھے، پھر قدرت نے وہ گھڑی بھی دے دی لیکن کیا لیاقت علی خان جو کچھ چاہتے تھے وہ کر سکے ؟نہیں ،امریکہ روس کا دورہ متنازعہ بنا اور نو مولود پاکستان کا پہلا وزیراعظم عالمی طاقتوں کی خواہش پر عوامی اجتماع میں گولی سے اڑا دیا گیا ,سازش سی. آ ئی. اے کی تھی اور اس کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ سی۔ ایم۔ ایچ راولپنڈی میں کئی روز قبل ہی کسی وی۔ آ ئی۔ پی مریض کی آ مد پر تیاریاں مکمل کر لی گئیں تھیں لیکن جب وہ زخمی مریض سی۔ ایم۔ ایچ آ یا تو کئی گھنٹے تک اس کے مخصوص کمرے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی اور جب خان لیاقت علی خان دنیا سے رخصت ہو کر،، مائنس،، ہو گئے تو شہید ملت کا اعزاز دے کر انہیں بھی بابائے قوم کے مزار کے احاطے میں بڑی شان کے ساتھ سپرخاک کر دیا گیا ،بات یہاں ختم نہیں ہوتی، خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل سے،، مائنس،، کر کے وزیراعظم بنایا گیا اور دادا حضور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنے لیے راستہ ہموار کرنے کے لیے سکندر مرزا تک جو کچھ کیا وہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے اس تاریخ کی کوئی ورق گردانی کرے نہ کرے، کم از کم جمہوریت کے دعوی دار پوتا صاحب عمر ایوب خان کو ضرور کرنی چاہیے دلچسپ بات یہ ہے کہ دادا حضور جب اپنی آ مریت کے کامیاب اقتدار اور جذبہ فرعونیت میں اپنا 10۔ سالہ جشن منا رہے تھے قدرت نے کروٹ لی اور فرعون کے گھر موسی کے مصداق ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت اور نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ان کا نعرہ عوامی تھا کہ،، مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی، کپڑا اور مکان،، یہ بھٹو صاحب کا یہ نعرہ اس قدر دلفریب تھا کہ انہیں ملک میں ایسی مقبولیت ملی کہ تمام مزدور، کسان، وکلا، طلبہ سب کے سب سڑکوں پر بھٹو صاحب کے ہم قدم بن گئے، ذولفقار علی بھٹو کا رجحان عوامی جمہوریہ چین اور سوشلزم کی جانب تھا جبکہ قائد اعظم کو کافر اعظم قرار دینے والے مذہبی رہنماوں کو یہ بات پسند نہیں آ ئی لیکن جونہی تحریک نے زور پکڑی اور،، راولپنڈی پولی ٹیکنیک،، کا ایک طالب علم مارا گیا ملک کے طول و عرض میں،، ایوب کتا،، کی تکرار شروع ہو گئی اور پھر صدر ایوب نے عوامی طاقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے حالانکہ وہ ماضی میں انتہائی ڈھٹائی سے اپنے آ مرانہ انداز فکر میں ،،مادر ملت،، کو غیر قانونی ہتھکنڈوں سے صدارتی الیکشن میں،، مائنس ،،کر چکے تھے انہوں نے جنرل یحیی خان کو اقتدار کی کرسی دے کر اپنی جان چھڑا لی، صدر یحیی خان کو سیاست کے بجائے دیگر مشغلے پسند تھے اس لیے انہوں نے ملک میں الیکشن کرانے کو فوقیت دی، مشرقی پاکستان میں ازلی دشمن بھارت نے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کو مختلف پوشیدہ سہولتوں سے میدان میں اتارا، بنگالیوں کو مغربی پاکستان سے متنفر کرنے کے لیے،، مکتی باہنی،، تشکیل دے کر اسے ہندوؤں کی مدد فراہم کر دی گئی، مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب نے طوفانی دورہ کیا اور پھر اقتدار کی لڑائی میں بھٹو شیخ مجیب الرحمن میں ٹھن گئی، مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی اور مولانا عبدالحمید بھاشانی خاصے مضبوط تھے بھاشانی ایک سے زیادہ مرتبہ مغربی پاکستان کے دورے پر آ ئے اور مختلف بھاری بھرکم اجتماعات سے عوامی خطاب بھی کیا لیکن الیکشن کی باری آ ئی تو بھارت نواز طاقتوں نے شیخ مجیب الرحمن کو ،،کلین سویپ،، کرا دیا جبکہ مغربی پاکستان میں بھٹو نے زبردست کامیابی حاصل کی، ہمارے سینیئر صحافی عباس اطہر نے کراچی کے جلسے کے حوالے سے بھٹو کے نام پر ایک سرخی،، روزنامہ آ زاد میں لگا دی،، ادھر تم، ادھر ہم، پھر پاکستان سے مشرقی پاکستان ،،مائنس،، کر بنگلہ دیش بن گیا ملک دو لخت ہوا تو یہ سرخی مرتے دم تک نہیں، ابھی تک ذوالفقار علی بھٹو کے لیے طعنہ بنی ہوئی ہے
عباس اطہر بھی وضاحتیں کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن کسی نے ان کی نہیں مانی،
جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت پر شب خون مارکر بھٹو کو عدلیہ کے تعاون سے،، مائنس،، کر دیا مختصر یہ کہ سی۔ آ ئی۔ اے ایک مرتبہ پھر متحرک ہوئی افغانستان پر روس کی چڑھائی کی للکار پر صدر ضیاء الحق کو ،،جہاد افغانستان،، کی میٹھی گولی دی مراعات اور سہولت کاری کی اور پھر ،،چڑیا سے باز ،،مروا دیا ،روس کے حصے بکھرے ہو گئے اور پاکستان غلط فیصلے کے باعث ایسا پھنسا کہ آ ج تک اسے نہ صرف دہشت گردی سے نجات نہیں ملی بلکہ مرد حق ضیاء الحق بھی ایک دہشت گردی کی واردات میں،، مائنس،، ہو گئے جنرل صاحب نے اپنے 12۔ سالہ آ مرانہ دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ،،مائنس ،،کرنے کے لیے بہت سے نسخے تلاش کئے مجلس شوری بنا کر سیاست دانوں کو وزارتیں اور اہم عہدے دیے لیکن پی ۔پی

Comments (0)
Add Comment