دنیا بھر میں امن کا قیام ایک ایسا دائمی چیلنج ہے جو انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی تہذیبوں اور اقوام کو درپیش رہا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ کا کردار ہمیشہ سے ہی ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ایسی قوم جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سپر پاور کا روپ دھارا اس کی پالیسیاں، اس کے اقدامات، اور اس کی ترجیحات دنیا کے امن کو ہمیشہ متاثر کرتی رہی ہیں۔
امریکہ کا عالمی طاقت کے طور پر ابھرنا 20ویں صدی کی ایک اہم ترین پیش رفت تھی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد، جہاں یورپ تباہ حال تھا، امریکہ نے اپنی مضبوط معیشت اور فوجی قوت کے بل بوتے پر عالمی قیادت سنبھالی۔ اس عروج کے ساتھ ہی اس پر عالمی امن کے قیام اور استحکام کی ذمہ داری بھی عائد ہوئی۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر، دنیا تباہی کے دہانے پر تھی۔ ایسے میں امریکہ نے یورپ کی تعمیر نو کے لیے مارشل پلان کا آغاز کیا، جو نہ صرف ایک اقتصادی امدادی پروگرام تھا بلکہ اس کا مقصد کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنا اور مغربی یورپ میں جمہوری نظام کو مستحکم کرنا بھی تھا۔ یہ اقدام عالمی امن کے لیے ایک مثبت قدم تھا، جس نے جنگ زدہ علاقوں میں استحکام لانے میں مدد کی۔
سرد جنگ کا دور امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان نظریاتی اور تزویراتی (strategic) کشمکش کا دور تھا۔ اس دوران امریکہ نے مغربی بلاک کی قیادت کی اور نیٹو (NATO) جیسے فوجی اتحاد قائم کیے، جن کا بنیادی مقصد سوویت توسیع پسندی کا مقابلہ کرنا تھا۔ نیٹو کا قیام اجتماعی دفاع کے تصور پر مبنی تھا، جس نے مغربی یورپ کو سوویت یونین کے ممکنہ حملے سے تحفظ فراہم کیا لیکن اس کے ساتھ سرد جنگ نے دنیا کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر بھی لا کھڑا کیا تھا۔
11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد، امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کیا۔ اس جنگ کا مقصد عالمی دہشت گرد نیٹ ورکس کا خاتمہ اور دنیا کو دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ بنانا تھا۔ اس جنگ کی پالیسیوں پر دنیا بھر سے شدید تنقید بھی کی گئی کیونکہ ان پالیسیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں امن کی بجائے مزید حالات خراب ہوئے۔
امریکہ کی فوجی مداخلتوں نے اکثر پائیدار امن کی بجائے عدم استحکام کو جنم دیا۔ ویتنام جنگ، عراق جنگ (2003)، اور افغانستان جنگ (2001) اس کی واضح مثالیں ہیں۔
ویتنام جنگ نے لاکھوں جانیں لیں اور ویتنام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، لیکن امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں پھر بھی ناکام رہا۔
عراق جنگ 2003 میں عراق پر حملے کے نتیجے میں صدام حسین کی حکومت تو ختم ہو گئی، لیکن اس کے بعد عراق میں فرقہ وارانہ تشدد، دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام بڑھ گیا۔ داعش (ISIS) کا ابھرنا بھی اس جنگ کے بعد کے حالات سے جوڑا جاتا ہے۔
افغانستان جنگ تقریباً دو دہائیوں تک جاری رہنے والی یہ جنگ امریکہ کے لیے سب سے طویل اور مہنگی جنگ ثابت ہوئی۔ اس کے باوجود، طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے۔
ان مداخلتوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اکثر امریکی تزویراتی یا اقتصادی مفادات کے لیے کی گئیں، نہ کہ صرف امن کے قیام کے لیے۔ تیل کے ذخائر، معدنی ذخائر، علاقائی اثر و رسوخ، اور ہتھیاروں کی صنعت کے مفادات کو ان جنگوں کی بنیادی وجوہات میں شمار کیا جاتا ہے۔ امریکہ کا دفاعی بجٹ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ بھاری فوجی اخراجات اور دنیا بھر میں فوجی اڈوں کا وسیع جال (جو 150 سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ہے) عالمی ہتھیاروں کی دوڑ کو فروغ دیتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یہ حکمت عملی دنیا میں عدم اعتماد پیدا کرتی ہے اور دوسرے ممالک کو اپنے دفاعی اخراجات بڑھانے پر مجبور کرتی ہے، جس سے امن کی بجائے کشیدگی بڑھتی ہے۔ افریقہ اور ایشیا میں کئی حکومتوں کا تختہ الٹنے میں امریکہ کے کردار پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ کاروائیاں اکثر جمہوری اصولوں کے منافی تھیں اور ان کے طویل المدتی نتائج متعلقہ علاقوں میں عدم استحکام اور سیاسی افراتفری کی صورت میں نکلے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران، امریکہ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات لگائے گئے۔ گوانتانامو بے جیسے قید خانے، ابو غریب جیل میں قیدیوں پر تشدد، اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی عالمی قدروں کی خلاف ورزیاں تھیں۔ ان اقدامات نے امریکہ کی اخلاقی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا اور امریکہ مخالف جذبات کو مزید پروان چڑھایا۔
غزہ اسرائیل جنگ میں امریکہ نے ثالثی کی بجائے اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا اور اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ہمیشہ ویٹو کیا جس سے امن کی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اس سے امریکہ بالواسطہ مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث ہوا ہے اور اب اس پر اپنی ملکیت کا دعوٰی کیا ثابت کررہا ہے یہ سوچنے کی بات ہے۔ امریکہ نے ہر طرح سے اسرائیل کی جارحیت اور بربریت کا کھل کر ساتھ دے کر اپنے کردار پر وہ داغ لگائے ہیں جو کبھی دھل نہیں سکیں گے کیونکہ اس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ امریکہ دنیا میں امن نہیں بلکہ جنگ چاہتا ہے اور اسے صرف اور صرف اپنا مفاد عزیز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پوری اقوام عالم کو اپنا غلام بھی رکھنا چاہتا ہے اقوام متحدہ تو محض ایک خانہ پری ہے۔ لیکن اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر عروج کو زوال ہے اور ہر ظالم اپنے انجام تک ضرور پہنچتا ہے۔ اگر اس نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو طاقت کا توازن کسی اور طرف بھی جا سکتا ہے۔
حالیہ پاک و ہند کشیدگی اور جنگ کے دنوں میں امریکہ کا کردار انتہائی مشکوک رہا ہے۔ حملوں سے پہلے امریکی وزارت خارجہ نے اس جنگ کو دو ملکوں کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور جیسے ہی پاکستانی برتری ثابت ہوئی امریکہ فورا” امن کا داعی بن کر سامنے آیا اور پاکستانی حکام