” ڈیجیٹل کانا پھوسی “

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

ایک دن ایتھنز کے بازار میں سقراط کا ایک جاننے والا ان کے پاس آیا اور بولا سقراط! میں تمہیں تمہارے ایک دوست کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔سقراط نے اسے روکا اور کہا رک جاؤ! پہلے میں تمہاری بات کو تین سوالوں کے فلٹرز کے امتحان سے گزارنا چاہتا ہوں۔ پہلا فلٹر سچائی ہوتی ہے کہ کیا تم جو کچھ مجھے بتانے جا رہے ہو، وہ بالکل سچ ہے؟ اس شخص نے کچھ دیر سوچا اور کہا مجھے پوری طرح یقین نہیں ہے ۔میں نے تو بس سنا ہے۔ سقراط مسکرائے اور بولے اچھاتو تمہیں یقین نہیں کہ یہ بات سچ ہے۔ دوسرا فلٹر نیکی ہوتی ہے سقراط نے اگلا سوال کیا کیا جو بات تم مجھے بتانے جا رہے ہو، وہ اچھی ہے؟ وہ شخص جھجک کر بولا نہیں یہ تو ایک بری بات ہے۔ سقراط نے سر ہلایا اور کہا تو تم نہ تو یقین سے کہہ سکتے ہو کہ یہ سچ ہے، اور نہ ہی یہ کوئی اچھی بات ہے؟ تیسرا فلٹر افادیت ہوتی ہے ۔ سقراط نے آخری سوال کیا کیا جو بات تم مجھے بتانے جا رہے ہو، وہ میرے یا معاشرے کے لیے فائدہ مند ہے؟ وہ شخص کچھ دیر سوچ کر بولا شاید نہیں ! یہ سن کر سقراط ہنسا اور کہا اگر یہ نہ سچ ہے، نہ اچھی ہے، اور نہ ہی میرے یا معاشرے لیے فائدہ مند ہے، تو پھر مجھے کیوں بتا رہے۔ یہ کہانی گو سقراط سے منسوب ہے لیکن  یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا  کیونکہ بہت سی کہانیاں  صرف اپنے اچھے ہونے کی وجہ سے لوگوں کو پسند آجاتی ہیں  اور وہ سوشل میڈیا کے اس دور میں پھیل جاتی ہیں ۔بہر حال بات بڑی اچھی ہے کہ اگر کوئی بات نہ سچ ہے نہ اچھی ہے اور کسی کے لیے بھی کیسے فائدہ مند ہے یا ہو سکتی ہے ۔اسے جھوٹ سمجھنا چاہیے اور جھوٹ پھیلانے  اور سنانے سے ہر ممکن طور پر گریز کرنا چاہیے۔یعنی سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے بڑھا دینا بھی برائی ہوتی ہے ۔ہاں اگر معاشرۓ کے لیے کوئی بات فائدہ  مند ہے  اور اچھی بھی ہے تو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہمارۓ معاشرۓ میں آجکل ایسی بہت سی باتیں گردش کرتی رہتی ہیں جن کی کوئی تصدیق نہیں ہوتی  اور جن کی وجہ سے معاشرۓ میں انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔

اسے ہماری اردو زبان میں کانا پھوسی یا سرگوشی کی عادت بھی کہا جاتا ہے  ۔یہ عادت اکثر بدگمانی سازشاور لوگوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں اور یہ ہمیشہ غیر تصدیق شدہ ہوتی ہے ۔یہ عمل پیٹھ پیچھے چغلی ،سازش یا خفیہ باتوں کے تبادلہ کے لیے کیا جاتا ہے  جو دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے ۔عام طور پر جب لوگ دوسروں سے چھپ کر باتیں کرتے ہیں تو اس سے اردگرد کے لوگوں میں بلاوجہ بےچینی اور شک و شبہات جنم لیتے ہیں ۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بلا وجہ سرگوشی کرنا ناپسندیدہ عمل ہے ۔خاص طور پر اگر اس کا مقصد دوسروں کو نظر انداز کرنا ،کسی کی برائی کرنا یا فتنے کو ہوا دینا ہو ۔قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ “سرگوشیاں تو شیطان (کے وسوسے ) ہیں تاکہ وہ ایمان والوں کو غم میں مبتلا کرۓ حالانکہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر  انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور مسلمانوں کو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے “(سورۃ المجادلہ ) اسی طرح نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ ” جو شخص لوگوں کی چغلی کھاتا ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا ” ( صیح مسلم ) کیونکہ کانا پھوسی  کرنے والے اکثر منفی سوچ رکھتے ہیں اور دوسروں کے معاملات میں بےجا مداخلت کرتے ہیں ۔یہ عادت دوستوں ،خاندان اور دفتر کے ماحول میں بداعتمادی پیدا کرتی ہے ۔اگر کسی محفل میں کوئی ضروری بات کرنی ہو جو جو ضروری ہو لیکن دوسروں کے سامنے نہیں کہی جاسکتی تو بہتر ہے کہ اسے الگ اور مناسب وقت پر کیا جاۓتاکہ کسی کو برا نہ لگے ۔اتنا  تو شعوربھی ہمیں فائدہ دیتا ہے کہ ہر سنی سنائی بات پر یقین نہ کیا جاۓ بلکہ ہر بات کو آگے پہنچانے سے قبل عقل اور حقائق  کی چھلنی سے گزار لیا جاۓ ۔

بھلا  بلا مقصد بات بتانے یا پھیلانے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ بلا تصدیق بات کو آگے پہنچانا ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے جو کئی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ اس سے غلط معلومات پھیلتی ہیں، افواہیں جنم لیتی ہیں اور بعض اوقات لوگوں کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے ڈیجیٹل دور میں، جہاں معلومات بڑی تیزی سے پھیلتی ہیں، ہمیں یہ عادت اپنانی چاہیے کہ کسی بھی خبر یا معلومات کو آگے بڑھانے سے پہلے اس کی تصدیق کر لیں۔ اسلامی تعلیمات میں بھی جھوٹی یا غیر مصدقہ بات پھیلانے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو( سورۃ الحجرات ) ۔سوشل میڈیا  نے “کانا پھوسی ” یا افواہ سازی کے پھیلاو میں نہایت اہم ادا کیا ہے اور یہ سیاسی و سماجی معاملات میں ایک ” ڈیجیٹل کانا پھوسی ” کا پلیٹ فارم بنتا جا رہا ہے ۔پہلے زمانے میں کانا پھوسی افراد کے محدود  دائرے میں رہتی تھی لیکن اب یہ یہ افواہ یا نجی گفتگو لمحوں میں وائرل ہو جاتی ہے ۔سوشل میڈیا کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ایک چھوٹی سی غیر مصدقہ خبر یا قیاس آرائی چند لمحوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے ۔سوشل میڈیا نے کانا پھوسی کو ایک نئی جہت دے دی ہے جہاں اطلاعات کی ترسیل فوری مگر غیر مصدقہ ہوتی ہے اور خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے ۔یہ ہماری ذمہ داری ہے ہے کہ ہم ہر خبر کی تحقیق  سقراط کے متعین شدہ فلٹر لگا کر کریں۔تاکہ غیر ضروری افواہوں کو ہوا نہ دیں اور سوشل میڈیا کو مثبت اور تعمیری مکالمے کے لیے استعمال کریں کیونکہ بسا اوقات آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا  بھی غلط ہو سکتا ہے  جیسے ہر چمکتی ہوئی شے سونا نہیں ہوتی ۔سوشل میڈیا پر یہ “ڈیجیٹل کانا پھوسی اکثر کردار کشی کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے کسی کی ذاتی زندگی کی معمولی تفصیلات بھی مزاح ،تنقید یا بدنامی کا ذریعہ بن سکتی ہیں  جو معاشرۓ میں  نفسیاتی اور ذہنی دباؤ میں اضافے کا باعث بنتی ہیں ۔“ڈیجیٹل کانا پھوسی “ایک ایسا عفریت بنتا جا رہا ہے جس کے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔جس کی روک تھام وقت کی اہم ترین ضروت بن چکی ہے ۔اگر ڈیجیٹل کانا پھوسی کی اس بڑھتی ہوئی آگ پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ہمارۓ پورۓ معاشرۓ کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔ آج  گو ہر ہاتھ میں موبائل رکھنے والا شخص اپنے آپ کو  ایک صحافی سمجھنے لگا ہے  اور ہر نظر آنے والی چیز سوشل میڈیا پر ڈالنا اپنا فرض سمجھتا ہے لیکن درحقیقت اسی طرح صحافتی اصولوں میں بھی تحقیق اور تصدیق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اگر ہر شخص یہ اصول اپنائے کہ وہ کسی بھی بات کو تصدیق کے بغیر آگے نہیں بڑھائے گا، تو معاشرے میں سچائی اور بھروسے کی فضا قائم ہوگی۔بےشک کانا پھوسی وقتی طور پر کچھ لوگوں کو خوشی دۓ سکتی ہے لیکن اس کے نتائج ہمیشہ منفی اور نقصان دہ ہوتے ہیں  ۔بہتر ہوگا کہ ہم اپنی گفتگو اور نیت کو صاف رکھیں تاکہ ہمارۓ تعلقات مضبوط اور معاشرہ بہتر ہو سکے ۔دوسری جانب حکومتی سطح پر اس “ڈیجیٹل کانا پھوسی ” کے انسداد کے لیے سخت ترین اقدامات کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے ۔ملک کے موجود حالات جہاں ہمارے ازلی دشمن   بھارت سےجنگی تناوٌ بڑھ رہا ہے اور پوری قوم دفاع وطن کے لیے افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے ۔ہمیں اس طرح کی جھوٹی  کانا پھوسی کے بارے میں خصوصی احتیاط اور توجہ کی ضرورت ہے ۔ہماری محب الوطنی کا تقاضا ہے کہ کسی طرح کی بھی کانا پھوسی اور افواہ سازی سے اجتناب کریں ۔ایسے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہماری سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ایسے لوگوں سے دور رہیں  جو مایوسی پھیلاتے ہیں ۔جو ہر وقت بیماری ،مہنگائی  ،سیاست اور شکایات ،بدگمانی اور پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں ،ایسے لوگ جن  کی زبان سے ہمیشہ منفی  بات نکلتی ہے ۔ہمیشہ پر امید اور مثبت سوچ رکھنے والوں کے ساتھ رہیں تاکہ آپ کی سوچ بھی صاف اور روشن رہے ۔

Comments (0)
Add Comment