پاکستان کی بنی مصنوعات کو فروغ دو

تحریر: خالد غورغشتی

ہمارے ملک میں کسی نعمت کی کمی نہیں ہے، ہر چیز سے یہ مالا مال ہے۔ قدرت نے اس کو حُسن کا کرشمہ اور اس سر زمین کو ذخائر کا مَنبع بنایا ہے۔ علم کی دنیا میں کئی بہترین یونی ورسٹیاں اور دینی جامعات ہدایت کا نور تقسیم کر رہی ہیں۔ ایسا خطہ کہ جہاں دنیا کا بہترین عسکری نظام موجود ہے، جو دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اس لیے تو وہ گاہے بہ گاہے اس پر میلی نظریں جمائے ایسی ایسی سازشیں تیار کرتا ہے کہ جن کا کوئی سر پاؤں ہی نہیں ہوتا۔

پاکستان کی سر زمین زرخیز ہے، جہاں محنتی لوگ، بہترین وسائل اور بے شمار صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر ہم صرف اپنی ملکی مصنوعات کو ترجیح دیں تو نہ صرف ملکی معیشت کو سہارا ملے گا بلکہ مقامی صنعت کاروں اور ہنر مندوں کا حوصلہ بھی بڑھے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم اکثر غیر ملکی اشیا کو معیار کا پیمانہ سمجھتے ہیں، جب کہ پاکستانی مصنوعات بھی معیار اور پائیداری میں کسی سے کم نہیں۔

مقامی مصنوعات خریدنے سے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں بلکہ زرمبادلہ بھی بچتا ہے۔ اگر ہم کپڑے، جوتے، فرنیچر، کھانے پینے کی اشیا اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے لیے پاکستانی برانڈز کو ترجیح دیں تو ہم خود کفالت کی جانب ایک مؤثر قدم اٹھا سکتے ہیں۔

آئیے عہد کریں کہ ہم اپنی پہچان، اپنی معیشت اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے “پاکستان کی بنی مصنوعات کو فروغ دیں گے” اور اسے فخر کا باعث سمجھیں گے۔

الحمدللہ ہمارے ملک میں کھیوڑہ کے مقام پر ایسی نمک کی کان ہے؛ جن کی دُنیا بھر میں مانگ ہے۔ بدقسمتی سے ہماری نا اہلی کی وجہ سے پڑوسی ممالک فائدہ اٹھاتے ہوئے، یہاں سے کوڑیوں کے بہاؤ نمک خرید کر ہیروں کے دام فروخت کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر حیرت انگیز بات تو یہ کہ اس پر میڈ ان پاکستان کی بجائے اپنے ملک کا مارکہ لگا کر اپنی تجارت کو وسعت دیتے ہیں۔ حالاں کہ گلابی نمک کی کان کا ان کے ملک میں نام و نشان تک موجود نہیں۔

اسی طرح باسمتی چاول بھی خالص ہمارے ملک کی پیداوار ہے، جسے ہمارا ہمسایہ ملک نہایت سستے داموں خرید کر عالمی منڈیوں میں اپنے ملک کے مارکہ کے ساتھ دُگنا قیمت فروخت کرتا ہے۔ اگر حکومتی سرپرستی کی جائے اور ہمارے تاجر عالمی منڈیوں میں صرف اپنے ملکی ذخائر کو اپنے مارکے سے فروغ دیں تو دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی میڈ ان پاکستان کو ترجیع دے کر کچھ عرصے کے اندر اندر اپنی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی کر سکتے ہیں۔

ہمارے ملک کا نہری نظام بہت وسیع ہے، اگر اس کو زرعی اجناس کے فروغ کے لیے استعمال کرنا شروع کیا جائے تو سبزیوں اور پھلوں کی خودساختہ قحط کے ساتھ ساتھ یہ بیرون ممالک بھیج کر کثیر زرمبادلہ کمانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

دنیا بھر کا دستور ہے کہ وہ اپنے ملک میں سیاحت کے لیے انتظام کرتے ہیں اور اس کے فروغ کے لیے آخر حد تک جاتے ہیں بلکہ کئی ممالک تو چل ہی سیاحت کے بل بوتے پر ہوتے ہیں۔ اگر اوورسیز پاکستانی خود بھی اور دیگر اقوام کو بھی اپنے ملک کی سیاحت کرنے کے لیے مائل کریں تو پاکستان میں قدرتی حسن سے مالا مال مقامات کی کیا کمی ہے؟

چاکلیٹس، ٹافیاں، بسکٹس، کیکس، پیزے. برگرز، گھی، دالیں، پھلوں، سبزیاں، چمڑے کے سامان، بیکری کی اشیا، سگریٹس، برقی آلات، مشینیں، فریج، موبائلز، گاڑیاں، سکوٹرز، سائیکلیں، پلاسٹکز، لوہے، سونے چاندی کے سامان اور مصالحہ جات وغیرہ سمیت سیکڑوں ایسی اشیا ہے جن پر میڈ ان پاکستان لکھ کر دنیا بھر میں ان کو فروغ دے کر ٹھیک ٹھاک آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔

بعض جگہ مقامی سطع پر سرف، نیل، صابن، شیمپو، گھی، تیل، پاپڑ، نمکو اور جوس، وغیرہ تیار کیا جاتا ہے ان کو ترکی ماڈل پر تشکیل دے کر حکومتی سرپرستی میں کم سے کم ٹیکس ڈال کر ان چیزوں کی نہ صرف ملکی مارکیٹوں تک رسائی بلکہ عالمی مارکیٹوں تک پزیرائی کی جاسکتی ہے۔

اس سلسلہ میں حکومت کو ہر تحصیل سے نچلے درجے کے تاجروں کو اعتماد میں لے کر ایسی راہیں ہموار کرنا ہوگی کہ لوکل برانڈ کو سپیشل برانڈ بنانے میں مدد مل سکے۔ بہر حال وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستانی اشیا کو فروغ دے کر میڈ ان پاکستان برانڈ مارکہ کی جگہ جگہ تشہیر کی جائے۔ اللہ ہمارے ملک کو دن دُگنی رات چُوگنی ترقی دے۔ آمین

Comments (0)
Add Comment