ادب، جس کا بنیادی مقصد انسانی شعور کو بلند کرنا اور معاشرے میں حساسیت اور تہذیب پیدا کرنا ہے، بدقسمتی سے خود بھی بعض اوقات انہی اخلاقی بحرانوں کا شکار نظر آتا ہے جن کے خلاف وہ آواز بلند کرتا ہے۔ ادبی حلقوں میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات ایک نہایت تشویشناک حقیقت ہیں، جس پر کھل کر بات کرنا اور اس کا سدِ باب کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
ادبی محفلیں، مشاعرے، کتابوں کی رونمائیاں اور سیمینارز بظاہر علم و فن کی ترویج کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں، لیکن ان تقریبات میں کئی مرتبہ خواتین لکھاریوں، شاعرات اور قاری خواتین کو ایسے افراد کے ہتک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو خود کو علم و ادب کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ بعض ادبی شخصیات اپنے مقام اور شہرت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان خواتین کو متاثر کرنے یا دباؤ میں لانے کی کوشش کرتی ہیں۔ کبھی تنقید کے لبادے میں بدتمیزی کی جاتی ہے، تو کبھی رہنمائی کے نام پر ذاتی حدود کو عبور کیا جاتا ہے۔
اس المیے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی باصلاحیت خواتین محض ایسے ناخوش گوار تجربات کے بعد ادبی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو جاتی ہیں یا پھر اپنی شناخت چھپا کر کام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ کئی بار یہ ہراسانی زبانی طنز، غیر ضروری قربت، یا سوشل میڈیا پر ذاتی حملوں کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے۔
ادبی دنیا میں خواتین کے ساتھ ایسے رویے نہ صرف فرداً فرداً ظلم ہیں بلکہ پورے ادبی کلچر پر ایک بدنما داغ ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ادبی ادارے، تنظیمیں اور تقریبات کے منتظمین واضح اخلاقی اصول وضع کریں اور ان پر سختی سے عملدرآمد کروائیں۔ ہراسانی کے خلاف فوری شکایتی میکانزم موجود ہو اور متاثرہ خواتین کو اعتماد کے ساتھ اپنی بات کہنے کا موقع دیا جائے۔
ادب کا اصل وقار تب ہی بحال ہو سکتا ہے جب اس کے داعی خود اپنے کردار اور عمل سے عزت و احترام کی مثال قائم کریں۔
ادب کا منصب ہمیشہ سے انسانیت کے وقار کو بلند کرنا رہا ہے۔ وہ دلوں کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے، ذہنوں کو جِلا بخشتا ہے اور روحوں میں روشنی بھرتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج اسی مقدس زمین پر کچھ کردار ایسے بھی ہیں جو قلم کی حرمت کو پامال کرتے، لفظوں کی آبرو کو روندتے اور ادبی لبادہ اوڑھ کر خواتین کی عزت پر دست درازی کرتے ہیں۔
یہ وہ چہرے ہیں جو مشاعروں میں مسکرا کر اشعار پڑھتے ہیں، مگر پسِ پردہ اپنی شہرت، تجربے اور تعلقات کا سہارا لے کر نوجوان لکھاریوں اور شاعرات کو ہراسان کرتے ہیں۔ یہ وہ زبانیں ہیں جو محافل میں اخلاقیات کے درس دیتی ہیں، لیکن تنہائی میں دھمکیاں، اشارے اور غیر اخلاقی رویے ان کا اصل چہرہ دکھاتے ہیں۔
ادبی حلقوں میں خواتین کو ہراساں کرنا ایک ان دیکھی وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ وہ جو استاد کہلاتے ہیں، وہ جو راہبر سمجھے جاتے ہیں، کئی بار وہی اعتماد کا خون کرتے ہیں۔ رہنمائی کے بہانے سے قریب آنا، تحسین کے پردے میں ذاتی مفادات کی بو بکھیرنا، اور تنقید کے نام پر ذلت آمیز سلوک کرنا، اب معمول بن چکا ہے۔
المیہ صرف یہ نہیں کہ یہ سب ہو رہا ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ اکثر معاشرہ اور ادبی حلقے اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بدنامی کے خوف سے متاثرہ خواتین خاموش رہتی ہیں اور ہراس گر کھلے عام اپنے زعم میں بدمست پھرتے ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ادب کی اس مقدس سرزمین کو ان ناپاک عناصر سے پاک کیا جائے۔ ہر ادبی ادارے، ہر تنظیم اور ہر پلیٹ فارم کو چاہیے کہ ہراسانی کے خلاف سخت ضابطے مرتب کرے۔ شکایت کرنے والی خواتین کی آواز کو عزت دی جائے، نہ کہ انہیں ہی بدنامی کے تعویذ میں جکڑا جائے۔
قلم کی عزت انہی ہاتھوں سے ہے جو اسے امانت سمجھ کر اٹھاتے ہیں۔
ادب کا وقار انہی لبوں سے ہے جو سچائی اور شرافت کی گواہی دیتے ہیں۔
ادب کی دنیا کو بچانا ہے تو پہلے ان لبادہ پوش مجرموں کو بے نقاب کرنا ہو گا۔
ورنہ یہ زمین لفظوں کی نہیں، بدنیتی کے سانپوں کی چراگاہ بن کر رہ جائے گی۔
خواتین کو ہراساں کرنا محض ایک فرد کا جرم نہیں، یہ پورے معاشرتی رویے کا عکس ہے، ایک ایسی تاریکی ہے جو ہر طبقے، ہر میدان اور ہر حلقے میں سرایت کر چکی ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا دفاتر، بازار ہوں یا ادبی محفلیں، خواتین کو ہر جگہ قدم قدم پر ہراسانی کے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔
ہراسانی کی شکلیں کئی ہیں:
نظریں جو عزت کھا جاتی ہیں
الفاظ جو روح پر زخم چھوڑتے ہیں
رویے جو اعتماد توڑ دیتے ہیں
جملے جو بے عزتی کا نشتر بن جاتے ہیں
ہاتھ جو جسمانی حدود کو روندنے کی کوشش کرتے ہیں
ہراسانی کا مقصد صرف جنسی استحصال نہیں ہوتا، بلکہ اکثر اس کا ہدف خواتین کی خود اعتمادی، خود مختاری اور معاشرتی مقام کو روندنا ہوتا ہے۔
ایسا کرنے والے دراصل عورت کو اس کے شعور، ہنر اور خوابوں سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ جرم اس وقت مزید سنگین ہو جاتا ہے جب ہراسانی کرنے والا بااثر ہو اور متاثرہ عورت کو انصاف کی امید نہ ہو۔
سوال یہ ہے: خواتین ہی کیوں ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں؟
کیونکہ ہمارا معاشرہ عورت کو اب بھی ایک کمزور مخلوق سمجھتا ہے۔
کیونکہ عزت کا بوجھ عورت پر اور غلطی کا پردہ مرد پر ڈال دیا جاتا ہے۔
کیونکہ شکایت کرنے والی عورت کو بدنامی کا طعنہ دیا جاتا ہے، اور مجرم دندناتا پھرتا ہے۔
خواتین کیوں خاموش رہتی ہیں؟
معاشرتی دباؤ
ادبی حلقوں میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کا المیہ
تحریر:رخسانہ سحر
ادب، جس کا بنیادی مقصد انسانی شعور کو بلند کرنا اور معاشرے میں حساسیت اور تہذیب پیدا کرنا ہے، بدقسمتی سے خود بھی بعض اوقات انہی اخلاقی بحرانوں کا شکار نظر آتا ہے جن کے خلاف وہ آواز بلند کرتا ہے۔ ادبی حلقوں میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات ایک نہایت تشویشناک حقیقت ہیں، جس پر کھل کر بات کرنا اور اس کا سدِ باب کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
ادبی محفلیں، مشاعرے، کتابوں کی رونمائیاں اور سیمینارز بظاہر علم و فن کی ترویج کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں، لیکن ان تقریبات میں کئی مرتبہ خواتین لکھاریوں، شاعرات اور قاری خواتین کو ایسے افراد کے ہتک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو خود کو علم و ادب کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ بعض ادبی شخصیات اپنے مقام اور شہرت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان خواتین کو متاثر کرنے یا دباؤ میں لانے کی کوشش کرتی ہیں۔ کبھی تنقید کے لبادے میں بدتمیزی کی جاتی ہے، تو کبھی رہنمائی کے نام پر ذاتی حدود کو عبور کیا جاتا ہے۔
اس المیے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی باصلاحیت خواتین محض ایسے ناخوش گوار تجربات کے بعد ادبی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو جاتی ہیں یا پھر اپنی شناخت چھپا کر کام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ کئی بار یہ ہراسانی زبانی طنز، غیر ضروری قربت، یا سوشل میڈیا پر ذاتی حملوں کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے۔
ادبی دنیا میں خواتین کے ساتھ ایسے رویے نہ صرف فرداً فرداً ظلم ہیں بلکہ پورے ادبی کلچر پر ایک بدنما داغ ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ادبی ادارے، تنظیمیں اور تقریبات کے منتظمین واضح اخلاقی اصول وضع کریں اور ان پر سختی سے عملدرآمد کروائیں۔ ہراسانی کے خلاف فوری شکایتی میکانزم موجود ہو اور متاثرہ خواتین کو اعتماد کے ساتھ اپنی بات کہنے کا موقع دیا جائے۔
ادب کا اصل وقار تب ہی بحال ہو سکتا ہے جب اس کے داعی خود اپنے کردار اور عمل سے عزت و احترام کی مثال قائم کریں۔
ادب کا منصب ہمیشہ سے انسانیت کے وقار کو بلند کرنا رہا ہے۔ وہ دلوں کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے، ذہنوں کو جِلا بخشتا ہے اور روحوں میں روشنی بھرتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج اسی مقدس زمین پر کچھ کردار ایسے بھی ہیں جو قلم کی حرمت کو پامال کرتے، لفظوں کی آبرو کو روندتے اور ادبی لبادہ اوڑھ کر خواتین کی عزت پر دست درازی کرتے ہیں۔
یہ وہ چہرے ہیں جو مشاعروں میں مسکرا کر اشعار پڑھتے ہیں، مگر پسِ پردہ اپنی شہرت، تجربے اور تعلقات کا سہارا لے کر نوجوان لکھاریوں اور شاعرات کو ہراسان کرتے ہیں۔ یہ وہ زبانیں ہیں جو محافل میں اخلاقیات کے درس دیتی ہیں، لیکن تنہائی میں دھمکیاں، اشارے اور غیر اخلاقی رویے ان کا اصل چہرہ دکھاتے ہیں۔
ادبی حلقوں میں خواتین کو ہراساں کرنا ایک ان دیکھی وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ وہ جو استاد کہلاتے ہیں، وہ جو راہبر سمجھے جاتے ہیں، کئی بار وہی اعتماد کا خون کرتے ہیں۔ رہنمائی کے بہانے سے قریب آنا، تحسین کے پردے میں ذاتی مفادات کی بو بکھیرنا، اور تنقید کے نام پر ذلت آمیز سلوک کرنا، اب معمول بن چکا ہے۔
المیہ صرف یہ نہیں کہ یہ سب ہو رہا ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ اکثر معاشرہ اور ادبی حلقے اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بدنامی کے خوف سے متاثرہ خواتین خاموش رہتی ہیں اور ہراس گر کھلے عام اپنے زعم میں بدمست پھرتے ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ادب کی اس مقدس سرزمین کو ان ناپاک عناصر سے پاک کیا جائے۔ ہر ادبی ادارے، ہر تنظیم اور ہر پلیٹ فارم کو چاہیے کہ ہراسانی کے خلاف سخت ضابطے مرتب کرے۔ شکایت کرنے والی خواتین کی آواز کو عزت دی جائے، نہ کہ انہیں ہی بدنامی کے تعویذ میں جکڑا جائے۔
قلم کی عزت انہی ہاتھوں سے ہے جو اسے امانت سمجھ کر اٹھاتے ہیں۔
ادب کا وقار انہی لبوں سے ہے جو سچائی اور شرافت کی گواہی دیتے ہیں۔
ادب کی دنیا کو بچانا ہے تو پہلے ان لبادہ پوش مجرموں کو بے نقاب کرنا ہو گا۔
ورنہ یہ زمین لفظوں کی نہیں، بدنیتی کے سانپوں کی چراگاہ بن کر رہ جائے گی۔
خواتین کو ہراساں کرنا محض ایک فرد کا جرم نہیں، یہ پورے معاشرتی رویے کا عکس ہے، ایک ایسی تاریکی ہے جو ہر طبقے، ہر میدان اور ہر حلقے میں سرایت کر چکی ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا دفاتر، بازار ہوں یا ادبی محفلیں، خواتین کو ہر جگہ قدم قدم پر ہراسانی کے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔
ہراسانی کی شکلیں کئی ہیں:
نظریں جو عزت کھا جاتی ہیں
الفاظ جو روح پر زخم چھوڑتے ہیں
رویے جو اعتماد توڑ دیتے ہیں
جملے جو بے عزتی کا نشتر بن جاتے ہیں
ہاتھ جو جسمانی حدود کو روندنے کی کوشش کرتے ہیں
ہراسانی کا مقصد صرف جنسی استحصال نہیں ہوتا، بلکہ اکثر اس کا ہدف خواتین کی خود اعتمادی، خود مختاری اور معاشرتی مقام کو روندنا ہوتا ہے۔
ایسا کرنے والے دراصل عورت کو اس کے شعور، ہنر اور خوابوں سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ جرم اس وقت مزید سنگین ہو جاتا ہے جب ہراسانی کرنے والا بااثر ہو اور متاثرہ عورت کو انصاف کی امید نہ ہو۔
سوال یہ ہے: خواتین ہی کیوں ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں؟
کیونکہ ہمارا معاشرہ عورت کو اب بھی ایک کمزور مخلوق سمجھتا ہے۔
کیونکہ عزت کا بوجھ عورت پر اور غلطی کا پردہ مرد پر ڈال دیا جاتا ہے۔
کیونکہ شکایت کرنے والی عورت کو بدنامی کا طعنہ دیا جاتا ہے، اور مجرم دندناتا پھرتا ہے۔
خواتین کیوں خاموش رہتی ہیں؟
معاشرتی دباؤ
بدنامی کا خوف
پیشہ ورانہ نقصان کا اندیشہ
انصاف نہ ملنے کا یقین
یہ خاموشی مجرموں کو مزید بے خوف اور خواتین کو مزید کمزور بنا دیتی ہے۔
کیا ہراسانی صرف جسمانی ہوتی ہے؟
ہرگز نہیں!
نفسیاتی، ذہنی، لسانی، رویوں کی ہراسانی، سبھی زہر کی طرح عورت کی ذات میں سرایت کر
بدنامی کا خوف
پیشہ ورانہ نقصان کا اندیشہ
انصاف نہ ملنے کا یقین
یہ خاموشی مجرموں کو مزید بے خوف اور خواتین کو مزید کمزور بنا دیتی ہے۔
کیا ہراسانی صرف جسمانی ہوتی ہے؟
ہرگز نہیں!
نفسیاتی، ذہنی، لسانی، رویوں کی ہراسانی، سبھی زہر کی طرح عورت کی ذات میں سرایت کر