شاعر درویش بشیر رحمانی

روبرو ۔۔۔۔محمد نوید مرزا

شاعر درویش ،مصور احساس ،میرے والد بشیر رحمانی کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے دس برس گذر چکے ہیں۔مگر ان کا نام اور علمی و ادبی اثاثہ کتابی صورت اور چاہنے والوں کی دلوں میں محفوظ ہے اور ہے گا۔
بشیر رحمانی ایک درویش منش انسان کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ان کی شاعری میں ذات کا عکس نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے ۔شاعر درویش نے شاعری کی تمام معروف اصناف حمد ،نعت ،منقبت ،نظم اور غزل میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف سخن میں یکساں مہارت اور تخلیقی ہنر مندی سے دنیائے ادب میں عزت و شہرت حاصل کی۔
والد محترم بشیر رحمانی 08 مارچ 1931 ء کو مشرقی پنجاب کے مشہور شہر ہوشیارپور ،بھارت میں پیدا ہوئے۔اس محلے یا علاقے کا نام چوڑی گراں کے نام سے معروف تھا۔آپ کے والد کا نام نور محمد اور والدہ کا نام زینب بی بی تھا ۔ایک جوان بھائی محمد طفیل اور جوان بہن اقبال بی بی کی وفات کے بعد آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔زینب بی بی کے مطابق جب شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تو شاعر درویش کی بہن اقبال بی بی بیمار تھیں ۔انھوں نے کہا کہ اقبال چلاگیا ہے ،اب شاید میں بھی دنیا میں نہ رہوں۔ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ سچ ثابت ہوئے اور بشیر رحمانی صاحب کی بہن دنیا سے چلی گئیں۔اس سے پہلے ان کے جوان بھائی بھی فوت ہوگئے تھے۔سو والد صاحب بڑے لاڈ پیار سے پرورش کے مراحل سے گزرے ۔والدین نے آپ پر خصوصی توجہ دی۔بشیر رحمانی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے ہی حاصل کی۔میٹرک بھی وہیں سے کیا،لیکن پھر تقسیم پاک و ہند کے موقع پر انھیں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان کے لئے ہجرت اختیار کرنی پڑی اور آپ لاہورآگئے۔یہ سفر خاصا مشکل،کٹھن اور تکلیف دہ تھا۔پاکستان آکر انھیں بہت محنت کرنی پڑی،تاہم 1951 ء میں انھیں پاکستان ملٹری اکاونٹس جیسے عظیم الشان سرکاری ادارے میں ملازمت مل گئی۔اسی ادارے سے ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا آغاز ہوا اور وہ حلقہ ارباب ادب پاکستان ملٹری اکاونٹس لاہور کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔یہاں ان کی ملاقات جناب نجم حسین سید،جناب عبدالحمید عدم،جناب نور بجنوری ،جناب مضطر جلالی،جناب یونس نشاط،جناب منیر منتظر ،جناب عبد الحمید تبسم،جناب طارب جمالی اور سب سے بڑھ کر علامہ بشیر رزمی سے دوستی کا آغاز تھا،جو تا عمر جاری رہا۔اس ادارے سے انھوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لی اور بعد ازاں احمد ندیم قاسمی صاحب کے ساتھ مجلس ترقی ء ادب سے بھی وابستہ رہے،جہاں ان کی ملاقات منصورہ احمد سے بھی ہوئی،اس ادارے میں اردو ادب کی بڑی بڑی شخصیات بھی آتی رہیں،جن سے والد صاحب کی دوستی بھی ہوتی چلی گئی۔مگر انھوں نے اپنے لئے کبھی کسی اعزاز یا عہدے کی خواہش نہیں کی۔وہ ادب سے جڑے ہوئے تھے اور آخری دم تک ان کا شعر و ادب سے تعلق قائم رہا۔
مصور احساس بشیر رحمانی نے شروع میں زیادہ تر غزل اور چند ایک نظمیں لکھیں۔بعد ازاں نعت نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور بے حد خوبصورت اور عقیدت سے بھری نعتیں لکھیں۔جناب احمد ندیم قاسمی ان کی نعتیہ شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں،،یہ نعت نگاری کا دور ہے۔بے شمار شعراء نعت کہہ رہے ہیں۔ان کا موضوع ایک ہے اور وہ حضور صل اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک ہے۔فرق انداز اظہار کا ہے اور بشیر رحمانی کا انداز دیگر شعراء سے اس لئے مختلف ہے کہ ان کی نعت میں ادھر ادھر کا شاید ہی کوئی ذکر راہ پاتا ہے۔وہ عقیدت اور صرف عقیدت کا اظہار کرتے ہیں،،
قاسمی صاحب کی یہ مستند رائے شاعر درویش کی تخلیقی صلاحیتوں کا بھر پور اعتراف ہے۔
بشیر رحمانی نے شاعری کے علاؤہ نثر نگاری میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔انھوں نے شعری مجموعوں ،سلگتا سمندر ،تخاطب اور نعتیہ مجموعوں بشارتیں اور زیارت کے علاؤہ ایک ناول غم عشق گر نہ ہوتا بھی تحریر کیا،چند افسانے اور مضامین بھی لکھے۔اردو کے علاؤہ انھوں نے پنجابی غزلیں اور نظمیں بھی لکھیں۔یوں ان کا کام شعری و نثری دونوں طرح کی اصناف پر مشتمل ہے۔والد صاحب کا کلام ملک کے معروف ترین جرائد میں شائع ہوتا ہے۔ریڈیو پاکستان کے اردو اور پنجابی کے مشاعروں میں ان کی طویل عرصہ شرکت رہی۔ان کی بھاری بھر کم گرجدار آواز لوگوں کو بہت متاثر کرتی تھی۔والد محترم نے 83 برس گیارہ ماہ کی عمر میں 08 فروری 2015ء کو وفات پائی۔مجھے یاد ہے آخری دنوں میں وہ میرے ہی گھر میں تھے لیکن پھر آبائی گھر جانے کی خواہش کی۔جہاں 05 فروری کو ان کی طبیعت بہت خراب ہوئی اور ہم انھیں سی ایم ایچ لے گئے۔جہاں 08 فروری 2015ء کو بارہ بج کر دس منٹ پر وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔انا للہ وانا الیہہ راجعون۔۔۔
ہمارے گھر سے جاتے ہوئے ان کا میری اہلیہ کو یہ کہنا کہ اب شاید یہ آخری ملاقات ہو اور پینشن لیتے ہوئے یہ کہنا کہ یہ میری آخری پینشن ہے اور وفات سے پہلے خواب میں بزرگوں کا آنا یقینی طور پر ان کی اگلے منزلوں کی آسانی اور روحانی سفر کی داستان ہے کہ وہ ایک پیر کامل حضرت حافظ محمد جعفر رحمانی رحمتہ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔جن کا سلسلہ حضرت ایوب انصاری رضی آللہ تعالیٰ عنہہ سے جا کر ملتا ہے۔والد محترم نے انہی کے خلیفہ حضرت عارف رحمانی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر کراچی میں بعیت کی تھی۔اللہ تعالیٰ والد محترم کے درجات بلند فرمائیں ،آمین
آخر میں ان کی حمدیہ،نعتیہ اور غزلیہ شاعری سے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔۔۔
سر بسجدہ حرف بھی ہیں ،جذبہء اظہار بھی
جھک گئی ہے دفعتاً پیشانیء افکار بھی

ڈھل گئی ہے عجز کے سانچے میں تقدیس قلم
خالق کونین کی تقدیس ہوتی ہے رقم

سلطان انبیاء کی تشریف آوری ہے
سرکار دوسرا صل علٰی والیہہ وسلم کی تشریف آوری ہے

گرداب غم سے کہہ دو ہٹ جائے رھگذر سے
طوفاں میں ناخدا کی تشریف آوری ہے

بہ پیش ساقئ کوثر سلام عرض کروں
حضور شافع محشر سلام پیش کروں

یہ آرزو ہے مرے دل میں اضطراب لئے
در حضور پہ جا کر سلام

Comments (0)
Add Comment