*غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا*

فاروق انجم بٹہ

جن کا خیال تھا کہ حماس کی مزاحمت کو ختم کر دیا گیا ہے اور اب وہ قصہ ماضی ہے، انہیں خبر ہو کہ اسرائیل کو اسی مزاحمت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر معاہدہ کرنا پڑا ہے اور معاہدہ بھی وہی ہے جس پر فلسطینی مزاحمت پہلے دن سے رضامند تھی، مگر نیتن یاہو نے جسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جن کا خیال تھا کہ غزہ اب قصہ پارینہ بن چکا اور یہاں اسرائیل ساحل کے ساتھ اب اپنی بستیاں آباد کرے گا، ان کو خبر ہو کہ معاہدے کی رو سے غزہ، غزہ والوں کے پاس ہے۔
جن کا خیال تھا کہ شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا جائے گا، انہیں خبر ہو کہ شمالی غزہ پر اہل غزہ کا حق تسلیم کروا لیا گیا ہے۔
جن کو یقین تھا کہ فلاڈلفیا اور نیٹسارم کاریڈور اب ہمیشہ کے لیے اسرائیلی فوج کے بوٹوں تلے رہیں گے انہیں خبر ہو کہ دونوں کاریڈورز سے اسرائیل کو انخلا کرنا ہو گا۔
جن کا خیال تھا مزاحمت کاروں کو یوں کچل دیا جائے گا کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گے وہ اب بیٹھے سر پیٹ رہے ہیں کہ صرف بیت حنون میں اتنے اسرائیلی فوجی مارے گئے جتنے آج تک کی جنگوں میں نہیں مارے گئے۔
جن کا خیال تھا چند سر پھروں کی مزاحمت کچل دی گئی، انہیں خبر ہو کہ اسرائیلی برگیڈیر عامر اویوی دہائی دے رہا ہے کہ مزاحمت تو آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے، لیکن اسرائیل گھائل ہو چکا، مزاحمت کار تو نئی بھرتیاں کر رہے ہیں، لیکن اسرائیل سے لوگ بھاگ رہے ہیں کہ جبری فوجی سروس نہ لی جائے۔
غزہ میں مزاحمت متحد ہے۔ لوگوں پر قیامت بیت گئی، بچے ٹھٹھر کر مر گئے، قبریں کم پڑ گئیں، لیکن کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سب ڈٹ کر کھڑے ہیں، لہو میں ڈوبے ہیں لیکن خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔ اُدھر اسرائیل ہے جہاں مایوسی اور فرسٹریشن میں دراڑیں وضح ہیں۔ ہرادی یہودی اسرائیلی حکومت کو سیدھے ہو چکے ہیں کہ ملک تو چھوڑ دیں گے لیکن لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کا فنانس منسٹر بزالل سموٹرچ دھمکی دے رہاہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی شکست ہے، وہ حکومت سے الگ ہو جائے گا۔ نیشنل سیکیورٹی کا وزیر اتمار بن گویر بھی دہائی دے رہا ہے کہ اس وقت ایسا کوئی معاہدہ شکست کے مترادف ہے۔ایرل سیگل چیخ رہا ہے یہ معاہدہ اسرائیل پر مسلط کیا گیا ہے۔ یوسی یوشع کہتا ہے بہت برا معاہدہ ہوا لیکن ہم بے بس ہو چکے تھے، اور کیا کرتے۔ مقامی خوف فروشوں سے اب کوئی جا کر پوچھے، حساب سودو زیاں کا گوشوارہ کیا کہتا ہے۔
اسرائیل کے جنگی مبصرین دہائی دے رہے ہیں کہ جس دن امریکہ کمزور پڑ گیا یا اس نے منہ پھیر لیا اس دن اسرائیل کا کھیل ختم ہو جائے گا۔ اسرائیلی فضائیہ کے افسران گن گن کر بتا رہے ہیں کہ امریکی امداد نہ پہنچتی تو اسرائیل تیسرے ہفتے میں جنگ کے قابل نہ تھا۔ وہ حیران ہیں کہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، ہزاروں قتل ہوئے پڑے اور لاکھوں زخمی، دنیا نے منہ موڑ رکھا، کئی ایٹم بموں کے برابر سلحہ ان پر پھونک دیا گیا، کہیں سے کوئی امداد نہیں ملی، اسلحہ تو دور کی بات انہیں کوئی مسلمان ملک پانی ا ور خوراک تک نہ دے سکا، لیکن وہ ڈٹے رہے، کیسے ڈٹے رہے۔ وہ لڑتے رہے، کیسے لڑتے رہے؟
کچھ وہ تھے جن کے سر قضا کھیل چکی، اور کچھ وہ تھے جو اس کے منتظر تھے، قدم مگر کسی کے نہ لڑکھڑائے۔ہبریو یونیورسٹی میں قائم عارضی وار روم میں اب پہلی تحقیق اس بات پر ہو نے لگی ہے کہ ان حالات میں مزاحمت کیسے قائم رہی؟حوصلے کیوں نہ ٹوٹے۔ دنیا اب ویت نام کی مزاحمت بھول چکی ہے۔ دنیا آئندہ یہ پڑھا کرے گی کہ غزہ میں ایسی مزاحمت کیسے ممکن ہوئی؟
جس مزاحمت کا نام لینے پر مغرب کے سوشل میڈیا کے کمیونٹی سٹینڈرڈز کو کھانسی، تپ دق، تشنج اور پولیو جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو جاتی تھیں، اتفاق دیکھیے اسی مزاحمت کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے، معاہدے میں اسی مزاحمت کا نام لکھنا پڑا اور عالم یہ ہے کہ امریکی صدر اور نو منتخب امریکی صدر میں کریڈٹ کاجھگڑا چل رہا ہے کہ سہرا کس کے سر باندھا جائے۔
دنیا اپنے فوجیوں کی تحسین کرتی ہے مگر ادھر خوف کی فضا یہ ہے کہ غزہ میں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کی شناخت خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کہیں کسی ملک میں جنگی جرائم میں دھر نہ لیے جائیں۔ ان جنگی مجرموں کے لیے باقاعدہ مشاورتی فرمان جاری ہو رہے ہیں کہ بیرون ملک جائیں تو گرفتاری سے بچنے کے لیے کون کون سے طریقے استعمال کیے جائیں۔خود نیتن یاہو کے لیے ممکن نہیں کہ دنیا میں آزادانہ گھوم سکے۔ قانون کی گرفت میں آن ے کا خوف دامن گیر ہے۔ یہ فاتح فوج کے ڈھنگ ہیں یا کسی عالمی اچھوت کے نقوش ہیں جو ابھر رہے ہیں؟
ادھر اسرائیل میں بائیڈن کے سفیر جیک لیو کا کہنا ہے کہ ا سرائیل نے نہ صرف گلوبل ساؤتھ گنوا دیا ہے بلکہ مغرب بھی اس کے ہاتھ سے جا رہا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ہم تو اسرائیل کے ساتھ ہیں لیکن نئی نسل کچھ اور سوچ رہی ہے اور اگلے بیس تیس سال میں معاملات نئی نسل کے ہاتھ میں ہوں گے۔جیک لیو کے مطابق بائڈن اس نسل کا آخری صدر تھا جو اسرائیل کے قیام کے بیانیے کے زیر اثر بڑی ہوئی۔ اب بیانیہ بدل رہا ہے۔
نیا بیانیہ کیا ہے؟ نیا بیانیہ یہ ہے کہ امریکہ میں ایک تہائی یہودی ٹین ایجرز فلسطینی مزاحمت کی تائید کر رہے ہیں۔ 42 فی صد ٹین ایجر امریکی یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا جرم کر رہا ہے۔ 66 فی صد امریکی ٹین ایجر یہودی فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں۔۔۔۔ کیا یہ کوئی معمولی اعدادوشمار ہیں؟غزہ نے اپنی لڑائی اپنی مظلومیت اور عزیمت کے امتزاج سے لڑی ہے ورنہ مسلم ممالک کی بے نیازی تو تھی ہی، مسلمان دانشوروں کی

Comments (0)
Add Comment