اعلان نبوت کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پہلا یہ حکم صادر فرمایا وانذرعشیرتک الاقربین ( آپ اپنے نزدیک ترین قرابت داروں کو عذاب الہی سے ڈرائیے) اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بنی ہاشم کو جمع کیا ان کے ساتھ بنی مطلب بن عبد مناف کی بھی ایک جماعت تھی۔ کل پینتالیس آدمی تھے۔ جب آپ نے ان لوگوں کو دعوت اسلام دی تو سب سے پہلے ابولہب کی طرف سے بڑا شدید ردعمل آیا جبکہ اسی اکٹھ میں ایک 10/11 سالہ بچہ موجود تھا جس نے فوری طور پر تصدیق رسالت کی اور اپنے چچا زاد بھائی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بھر پور مدد کا اعلان کیا۔ اس بچے کا اسم گرامی علی ابن ابی طالب تھا۔اس دن کے بعد ابولہب کفر وشرک اور جہالت وضلالت کا نمائندہ ٹھہرا اور سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایمان، ایقان اور وجدان کے نمائندے بن گئے اور پھر انہوں نے اپنی پوری زندگی میں خلیفہ اللہ فی الارض کی عملی تفسیر پیش کی۔ آپ 13 رجب کو مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سگے چچا ابوطالب کے گھر پیدا ہوئے اور آپ کو مولود کعبہ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور بعد میں تربیت کی بدولت کوئی نصرانی کوئی یہودی یا مجوسی بن جاتا ہے۔ حضرت علی کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ بعد از پیدائش ان کی ساری تربیت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھوں ہوئی لہذا بادی النظر میں انہوں نے ایک دن بھی عہد الست کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ جس دن اسلام کی دعوت پر لبیک کہا اس کے بعد دامے درہمے سخنے اللہ کے رسول کا مکمل طور پر ساتھ دیا۔ مستند روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی میں سب سے زیادہ کافر آپ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوئے۔ غزوہ بدر میں بھی سب سے پہلے آپ نے کافر کو مارا تھا اور اس کے بعد
پوری جنگ کے دوران قریش کو شکست دینے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کی فتح شکست میں تبدیل ہوگئی تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹے رہے اور جنگ مذکور میں شدید زخمی بھی ہوئے تھے لیکن آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی تھی۔ غزوہ خندق میں بھی دشمنان اسلام کا مورال توڑنے میں آپ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور پھر غزوہ خیبر میں یہ فرمان کہ کل میں جھنڈا اس کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور جس سے اللہ اور اس کا رسول بھی محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالی نے فتح اس کے ہاتھ میں رکھی ہے اور یوں مرحب کا سارا غرور لا فتاہ الا علی لا سیف الا ذوالفقار کی بدولت خاک میں مل گیا۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ آپ کا قلمی تھا اور فتح مکہ کے دوران دوش رسالت پر سوار ہو کر آپ نے کعبہ اللہ سے کفر وشرک کے سارے نشانات مٹا دیئے تھے۔ اسلام کے لئے آپ کی گراں قدر خدمات۔۔اللہ اکبر اور سبحان اللہ سبحان اللہ ( جسے نان جویں بخشی ہے تو نے۔۔ اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر)۔ آپ نے ہمیشہ اپنے سید ومولی محمد الرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بازو بن کر دکھایا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی کہ مجھے علی سے وہ نسبت ہے جو کہ موسی کو ہارون سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا( لا نبی بعدی)
آپ کی شادی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور پیاری بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہوئی تھی۔ دونوں کا زندگی گزارنے کا انداز ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ کے بیٹے سیدنا حسن اور سیدنا حسین بیمار ہو گئے اور آپ اور آپکی زوجہ محترمہ نے اللہ کے حضور دعا فرمائی اور منت مانی کہ صحت یابی کی صورت میں دونوں میاں بیوی تین دن کے روضے رکھیں گے۔ لہذا بعد میں روزے رکھے گئے۔ جب
پہلے دن افطاری کا وقت ہوا تو دروازے پر دستک ہوئی اور ایک ضرورت مند نے کھانے کے لئے کچھ مانگا۔ جو کچھ گھر میں کھانے کے لئے تھا اس کو دے دیا گیا۔ اسی طرح کی صورتحال تینوں دن ہوئی اور آپ حضرات نے تینوں دن روزہ پانی سے افطار کیا۔ اس کے بعد جب علی علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہیں بتایا گیا کہ حضرت جبریل سورہ الدھر کی آیت مبارکہ لے کر تشریف لائے ہیں جس کا مفہوم کچھ یوں تھا( وہ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن کی سختی پھیل جانے والی ہے وہ اللہ تعالی کی محبت میں یتیموں، مسکینوں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں) آپ عبادت وریاضت میں اس حد تک رکوع وسجود میں مستغرق ہو جاتے تھے کہ آپ کے جسم میں پیوست تیر نکال لیا جاتا تھا اور آپ کو خبر تک نہ ہوتی تھی۔ مفسرین کے خیال میں سورہ الفتح کی آیت مبارکہ “رکعا سجدا” بھی آپ کی شان میں نازل ہوئی تھی۔
سیدنا محمد الرسول اللہ کا ارشاد من کنت مولی فھو علی مولی اور انا مدینہ العلم وعلی بابھا سیرت کی کتابوں کا حصہ ہے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا تھا کہ علی کے چہرے کو دیکھنا ثواب ہے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمان ہے کہ آج علی نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا اور آپ کی شہادت کے موقعہ پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے روضہ انور کے دروازے کو پکڑ کر فرمایا تھا