اصل وراثت

تحریر ؛۔جاویدایازخان احساس کے انداز

وراثت ایک فرد کی موت کے بعد ہت طرح کی نجی ملکیت، لقب، قرض، مراعات، حقوق اور فرائض کی ادائیگی کا رواج ہوتی ہے۔ وراثت کے قوانین معاشروں میں مختلف ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں جائداد ،رقم ،کاروبار کی بعد از موت تقسیم کو سمجھا جاتاہے ۔جبکہ ایسا قطعی نہیں ہوتا ۔مالی معاملات کی تقسیم ایک شرعی حصہ کے مطابق پسماندگا ن میں کی جاتی ہے ۔لیکن والدین کی میرث میں کچھ ایسی چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں جو سب اولاد کے حصہ میں برابر آتی ہیں ۔یہی اصل میراث ہوتی ہے ۔مال دولت اور جائداد تو بک بھی جاتے اور خرچ بھی ہو جاتے ہیں لیکن یہ میرث نہ تو بکتی ہے اور نہ ہی خرچ ہوکر ختم ہوتی ہے ۔ یہ میرث اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی ہوتی ہے ۔اسے ہماری شخصیت یا تو خود اپنے ہاتھوں برباد کردیتی ہے یا پھر اس میں مزید اضافہ کرکے اس میراث کو اپنی آنے والی نسلوں کے سپرد کر جاتی ہیں ۔یہ میراث مال ودولت سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے ۔اس میراث میں انسانی نیک نامی ،اس کی اچھی روایات ،اسکا عمدہ کردار ،اسکی مثالی عادات ، انسانی خصوصیات شامل ہوتی ہیں ۔جن کی تقسیم کے لیے کسی فارمولے کی ضرورت نہیں ہوتی یہ ہر بچے اور بچی کے لیے یکساں حصے میں آتی ہے ۔جس کا دل چاہے اپنا لے اور جس کا دل چاہے نہ اپناۓ ۔یہ با لکل کسی کمپنی کی ” گڈول ” کی طرح ہوتی ہے جس کی قیمت بعض اوقات کمپنی کے کل سرماۓ سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔کمپی کی گڈول کی تو ایک قیمت کا تعین کیا جاسکتا ہے لیکن کسی انسان کی اس میرث کی قیمت نہیں ہوتی یہ اسکی اولاد کے لیے برابری کی بنیاد پر خود بخود مساوی بٹ جاتی ہے ۔میرے ایک دوست نے مرتے وقت اپنے بچوں کو ایک ڈائری دی اور ہدایت کی کہ تمہیں جو جائداد اور مال بطور وارثت مل رہا ہے وہ تمہارا ہے لیکن اس ڈائری میں بہت سے لوگوں کے نام لکھے ہوے ہیں جن کو میں ہمیشہ راز داری سے مدد کے طور پر کچھ رقم بھجوایا کرتا تھا یہ لوگ وہ لوگ ہیں جن کے مجھ پر پوری زندگی احسانات رہے اور آج وہ سفید پوشی میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ان میں کچھ یتیم ہیں کچھ بیوائیں ہیں کچھ مدرسے اور کچھ مساجد ہیں ۔میری باقی جائداد کی طرح یہ نام بھی آپس میں مساوی بانٹ لینا اور اس سلسلے کو اپنے باپ پر قرض سمجھ کر اتارتےرہنا تاکہ انہیں یہ محسوس نہ ہو کہ تمہارا باپ اب دنیا میں نہیں رہا ۔باپ کے بناۓ ہوۓ تعلقا ت بھی اس کی میراث اور ورثے کی طرح ہوتے ہیں انہیں سنبھالنے اور نبھانے کو اپنا فرض سمجھنا ہے ۔باپ کا دوست باپ کی جگہ ہوتا ہے اسے احترام اورعزت باپ کی طرح ہی دینا ۔ کاروبار میں باپ کے زریں اصولوں پر عمل کرنا ۔
ایسے ہی ہمارے اباجی جب بڑے عرصہ سے بیماری اور کمزوری کی باعث بستر علالت پر تھے ۔بمشکل بچوں کے سہارے سے کھڑے ہو سکتے اور چل پاتے تھے ۔ایک ایسے انسان کا بستر پر لیٹ جانا اس لیے کسی المیے سے کم نہیں ہوتا جس نے پورے زندگی چند گھنٹوں سے زیادہ نیند بھی نہ کی ہو ،جسکی پوری زندگی بھر پور جدوجہد اور خدمت انسانیت کےلیے وقف رہی ہو ۔جس نے آدھی زندگی فوج میں رہ کر ملک کی خدمت کی ہو جس نے دوسری جنگ عظیم سے لیکر مشرقی پاکستان تک کی تمام جنگوں میں بہادری کے تمغے حاصل کئے ہوں جس نے بھارت کی جنگی قید کی صعوبتیں برداشت کی ہوں جو تما زندگی عزم واستقامت کا پیکر رہا ہو ۔لیکن بڑھاپے کی مجبوریاں بہت کچھ کرادیتی ہیں ۔ان کی خدمت کے لیے ان ہی کا ایک پرانا ملازم اسلم اللہ والاہوتا تھا ۔جس نے اپنی پوری زندگی ان کے ساتھ ساتھ گزاری تھی گو خود بھی بہت بوڑھا ہوچکا تھا مگر ان کی خدمت کے لیے اپنی بھر پور کوشش کرتا تھا ۔اللہ والے کی یہ عادت تھی کہ وہ ہمیشہ یس سر ! اور ہاں جناب ! کہتا تھا ۔اللہ والا کہا کرتا تھا کہ مجھے میرے خدا نے شاید پیدا ہی خان صاحب کی خدمت کے لیے کیا ہے ؟ اباجی کی بیماری کے دوران میں اکثر ان سے ملنے آتاتھا اور ان کے بستر کے ساتھ ہی دوسری چارپائی پر ان کے ساتھ لیٹ جاتا اور وہ مجھ سے مختلف موضوحات پر گفتگو کرتے رہتے ۔ایک دن کہنے لگے کہ میری وراثت کچھ نہیں ہے جسے تم بہن بھائیوں میں بانٹنے کی ضرورت پڑۓ شاید میں مالی طور پر بطور والد اپنی اولاد کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا لیکن رزق حلال کے ذریعے جو بھی کمایا وہ سب آپ خرچ کردیا ۔ کہنے لگے ہمارے پاس کتنے لاکھ ،کتنے کروڑ ،کتنے گھر ،کتنی گاڑیاں ہیں کھانا تو بس دو روٹی ہی ہوتا ہے جینا تو بس ایک ہی زندگی ہے فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ کتنے زندگی کے کتنے پل اور لمحے ہم نے باہم خوشی سے گزارے اور کتنے لوگ ہماری وجہ سے خوشی سے جی سکے ۔پھر ایک فائل دی جس میں ان کے اور ہم سب بچوں کے ضروری کاغذات تھے ۔سب بہن بھائیوں کے برتھ سرٹیفکیٹ ،نکاح نامے ،اسناد ،کے علاوہ ان کی پینشن بک ،ایورڈز ،تمغے ،تعریفی اسناد ،اور ان کے چند خطوط شامل تھے ۔پھر کہنے لگے یہی میری وراثت ہے لیکن میرے عہدے ،میرے ایورڈز اور بہادرانہ جنگی خدمات پر ملنے والے تمغوں اور اعزازت پر فخر نہ کرنا البتہ میری دیانتداری ،جذبہ جہاد ،جذبہ خدمت انسانیت کی تقلید ضرور کرنا ۔اس بات پر ضرور فخر کرنا کہ تمہارا باپ ایک مجاہد اور سچا عاشق رسول تھا ۔یاد رکھنا مرنے کے بعد جتنی زمین بادشاہ کو ملے گی اتنی ہی فقیر کو بھی ملے گی لیکن حساب صرف ہمارے اعمال کا ہو گا ۔ایسی غربت پر صبر اور فخر کرنا چاہیے جس میں عزت اور وقار ہو وہ اس امیری سے لاکھ درجہ بہتر ہے جس میں ذلت ورسوائی مقدر ہو تی ہو ۔پھر کہنے لگے وراثت میں صرف منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ہی نہیں ہوتی بلکہ انسان کا اخلاق ،کردار ،شرافت ،اور نیک نامی بھی وراثت ہی ہوتی ہے تاکہ ہماری نسلیں مال ودولت کے ساتھ ساتھ ان خصوصیات کی بھی وارث بنیں ۔ضروری نہیں کہ کسی چیز کا ملنا ہی ہماری جدوجہد اور دعاوں کی قبولیت ہو بلکہ کسی چیز کا دور ہوجانا بھی دعاوں کی قبولیت ہوتا ہے ۔اللہ اگر گناہوں سے دور رکھے تو یہ اس کا سب سے بڑا احسان ہے ۔انسان کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا بہتر نہیں ہے یہ صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔اس لیے ہمیشہ اللہ سے اپنی بھلائی مانگو دنیا سے نہیں ۔دنیا تو وہ بھی چھین لیتی ہے جو تمہارے پاس ہوتا ہے اور اللہ تمہیں وہ بھی دے دیتا ہے جو تم نے کبھی سوچا ہی نہیں ہوتا ۔میری سب سے بڑی وارثت یہ ہونی چاہیے کہ میرے بعد میری اولاد کی عزت اس وجہ سے ہو کہ ان کا باپ ایک اچھا آدمی تھا ۔بھلا کسی چور ،کسی ڈاکو ،کسی رشوت خور ،بدیانت کی اولاد کی کون عزت کرتا ہے ؟ تمہاری شکل ،تمہاری عادت ، تمہاری شخصیت ،تمہاری گفتگو ،تمہارے کردار سے تمہارے باپ کی جھلک نظر آنی چاہیے ۔تمہیں اور تمہارے کردار کو دیکھ کر لوگوں کو تمہارے باپ کی بےساختہ یاد آنی چاہیے یہی میری اصل وراثت ہے ۔ دیکھو درخت ہر سال اپنی خشک پتیاں گرا دیتے ہیں لیکن اپنی شاخیں اور جڑیں محفوظ رکھتے ہیں وہ صرف اپنے پتے بدلتے ہیں بنیاد نہیں بدلتے ۔اسی لیے نئے پتے بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے گرکر ضائع ہو جاتے ہیں ۔اولاد بھی درخت کے پتوں کی طرح ہی ہوتی ہے اسے ویسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ اس کی بنیاد ہے ۔پھر حضرت علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر پڑھ کر سنایا کہ
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیوں کر ہو !
کہتے ہیں کہ کسی انسان کو ماپنے کا پیمانہ اس کی شکل وصورت ،ہنر ،دولت یا اس کے پاس موجود نعمتیں ،جائداد ،زرعی زمین نہیں ہوتیں بلکہ انسانی معیار کا پیمانہ اس کا کردار ،اس کی ایمانداری ،اس کی دانائی ،اس کی وفا ،اس کی محبت ، خدمت ،سچی دوستی اور اس میں موجود انسانیت ہوتا ہے اور یہی انسان کی اصل میراث ہوتی ہے جو اس کی اولاد میں منتقل ہونا بے حد ضروری ہوتاہے ۔جب آپ کے اچھے کرادار ،گفتگو ، علم ،عمل ،بہادری ،نیکی اور کسی بھی اچھائٰ کی باعث آپ کو اپنے باپ سے تشبیہ دی جاۓ یا آپ کو دیکھ کر لوگ آپ کے والد کو یاد کریں تو سمجھ لیں کہ آپ قابل میراث پدر ہیں ۔یہی آپ کی اصل وراثت ہے ۔اسی طرح بچیوں کو دیکھ کر ان کی ماں کو پہچان لینا اور یاد کیا جانا بھی اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ اس نے اپنی ماں کی میراث سنبھالی ہوئی ہے۔ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم اپنے اجداد کی میراث کے حقدار ہیں ؟

Comments (0)
Add Comment