لاہور نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کا بھی دل کہلاتا ہے، دنیا بھر میں صوبائی دارالحکومت کو ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ماضی میں جب شہباز حکومت میں لاہور کی تعمیروترقی پر تنقید ہوتی تھی تو میں ناقدین کو سمجھاتا تھا کہ بھائی لاہور صوبائی دارالحکومت ہے اور دنیا کے تمام ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ صوبائی ہیڈکوارٹرز کو سب سے زیادہ ڈویلپ کرتے ہیں۔ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ میں لاہور کی ترقی کا یہ عالم تھا کہ سارا پاکستان لاہور کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتا۔دوسرے صوبوں کے افراد کہتے تھے کہ پنجاب اور لاہور کی تعمیر و ترقی کرنے والا شہباز شریف ہمیں ادھار دے دو۔ اب یہ صورت حال ہے کہ لاہور کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہونے لگا ہے۔ محکمہ ماحولیات کے اہلکار صرف لاہور سے کروڑوں روپے ماہانہ اکٹھا کرتے گئے اور باغوں کا شہر لاہور سموگ زدہ ہوگیا۔ اللہ بھلا کرے کامران لاشاری کا جس نے والڈ سٹی کی صورت لاہور کی پرانی ثقافت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ٹی ڈی سی پی سائٹ سینگ بس سروس سے لاہور کو ایکسپلور کروانے کا اچھا انتظام کیا گیا ہے لیکن تجاوزات اور بے ہنگم ٹریفک کے باعث اس سہولت سے پوری طرح سے لطف اندوز ہونا ممکن نہیں ہو رہا۔ ویسے تو پورے پنجاب کی ٹریفک پولیس ہی کام چور اور غیرقانونی پارکنگ مافیا کی ساتھی ہے لیکن لاہور ٹریفک پولیس کا شمار نااہل اور کرپٹ ترین میں ہوتا ہے۔ میں پانچ دفعہ کالم لکھ چکاہوں، وزیراعظم اور وزارت داخلہ حکم دے چکے لیکن ابھی تک بغیر نمبر پلیٹ، بلیک پیپر، راڈ لگا کر چھپائی اور غیر نمونہ نمبر پلیٹ گاڑیوں کے خلاف موثر کاروائی نہیں ہوسکی۔ ٹریفک کے نظام کو اتنا “فار گرانٹڈ” لیا ہوا ہے کہ ایک ہی شخص کو سی ٹی او لاہور اور ڈی آئی جی پٹرولنگ پنجاب لگادیا گیا ہے کہ شہری لڑتے مرتے رہیں افسر تو ڈبل عہدے انجوائے کریں۔ کبھی یہ دور تھا کہ لاہور کی سیاحت غیر ملکیوں کی توجہ کا مرکز ہوتی تھی اور مشہور تھا کہ جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں۔ پھر ٹرانسفر پوسٹنگ کا معیار سینئر افسران سے تعلقات بن گیا اور لاہور کو کمائی کا اڈا سمجھ کر سب نے کمائی کے نت نئے طریقے اپنانے پر توجہ مرکوز کرلی۔ تاریخی عمارات کا حامل لاہور اپنی شناخت کھو چکا اور صرف یہی پہچان باقی رہ گئی کہ بے ہنگم ٹریفک اور تجاوزات۔ صرف ضلع لاہور میں پانچ ہزار ارب سے زائدمالیت کی سرکاری زمینوں پر پرائیویٹ مافیا کے قبضے ہیں۔ لاہور کی مختلف مارکیٹوں اور شاہرائوں پر عارضی تعمیرات اور تجاوزات قائم کروا کر ماہانہ پچاس کروڑ سے زائد صرف تجاوزات کی آمدنی ہے جس میں ضلعی انتظامی افسران، ایل ڈی اے، لوکل گورنمنٹ اور دیگر محکموں کے افسران اور اہلکار برابری کی بنیاد پر بینفشریز ہیں۔
وزیراعلیٰ کے ہوم ٹائون تحصیل رائیونڈ میں سوائے جاتی عمرہ چوک کے بدترین تجاوزات ہیں خاص طور پر مین روڈ اور رائیونڈ کے لوگوں کا پیدل چلنا بھی محال ہوچکا۔ مریم نواز اپنی وزارت اعلیٰ میں چوتھی دفعہ تجاوزات کے خاتمے کا الٹی میٹم دی چکی ہیں لیکن بیوروکریسی تجاوزات ختم کروانے میں سیریس نہیں۔ ڈپٹی کمشنر لاہور تجاوزات کے خاتمے کیلئے پورا زور لگا رہے ہیں لیکن میونسپل کارپوریشن لاہور کے افسران اور اسسٹنٹ کمشنرز احکامات پر عمل دراآمد کرکے اپنی منتھلی پر کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ سیکرٹریز اور ڈپٹی کمشنرز کو اپنی مرضی کی ٹیم بنانے کی خودمختاری دیے بن انتظامی معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ بیشتر اضلاع میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز ریونیو اور اسسٹنٹ کمشنرز ڈپٹی کمشنرز کے احکامات کو سریس نہیں لیتے۔
لاہور میں بلدیاتی نمائندوں کے فنڈز پر ڈاکہ زنی تو ہو رہی ہے لیکن عوامی فلاح و بہبود کا کوئی قابل ذکر کام نظر نہیں آرہا۔
خوش آئند بات ہے کہ سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ ٹک ٹاکر نہیں ہیں اور پروفیشل پولیسنگ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشن لاہور فیصل کامران کی دیانت داری اور میرٹ زبان زدعام ہے لیکن انکو سوشل میڈیا کی بجائے امن و امان پر مذید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لاہور میں سرکاری زمینوں پر قائم غیر قانونی ہائوسنگ پراجیکٹس، کمرشل مارکیٹوں اور دیگر تعمیرات کا ماہانہ کرایہ کئی سالوں سے ایم این اے اور ایم پی ایز کے فرنٹ مین اکٹھا کرتے آرہے ہیں۔ اہلیان لاہور کی بدقسمتی کی انتہا ہے کہ یہاں کے منتخب عوامی نمائندے ہی قبضہ مافیا کی سرپرستی کرتے ہیں۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کے سی ای او بابر صاحب دین اور ڈپٹی کمشنر لاہور موسیٰ طاہر شاباش کے حقدار ہیں جنہوں نے صاف ستھرا لاہور مہم کو کامیابی سے جاری رکھا ہوا ہے۔ ڈپٹی کمشنر لاہور ابھی تک میونسل کارپوریشن لاہور کے زیرانتظام علاقوں میں صفائی کروانے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔سینکڑوں کی تعداد میں سرکاری مالی ہیں لیکن لاہور کے پارکس کچرا کنڈی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ واسا اربوں روپے کے بجٹ اور بھاری بھرکم ماہانہ بلز اکٹھے کرکے بھی شہریوں کو صاف پانی مہیا نہیں کررہا جس سے لاہوری بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایل ڈی اے کے افسران تو مہینوں میں کروڑ پتی ہوجاتے ہیں لیکن شہریوں اور حکومتی مفاد کے کام نہیں ہوتے۔ لاہور کے آدھے سے زائد پیٹرول پمپ کسی بھی طور پر رجسٹریشن کی بنیادی شرائد پر پورا نہیں اترتے اور کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں سب اپنا حصہ وصول کر’’ اوکے‘‘ کی این او سی دے رہے ہیں۔