تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
مسند اقتدار براجمان ہونا سیاسی قیادت کی منزل مقصود قرار پاتی ہے اور اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے سیاستدان انتھک محنت میں مسلسل مصروف عمل رہتا ہے۔ سیاست کے میدان کارساز میں اُسکا سامنا اپنے سے چھوٹے بڑے حریف سے ہوتا ہے۔ منزل مقصود تک رسائی کے لئے اسے حلیفوں کا ساتھ درکار رہتا ہے۔ سیاست بھی عجیب شے ہے جس میں آج کا حلیف کل حریف ہوسکتا ہے تو کبھی کل کا حریف آج کا وفادار ساتھی بھی بن سکتا ہے۔ سیاست کے میدان میں کامیابی قدم چُومتی ہے تو کبھی شکست کا داغ ماتھے پر سجانا پڑتا ہے۔ بار بار غیر آئینی و غیر منتخب حکمرانوں و آمروں کی بدولت پاکستان میں مضبوط و ہمہ جہت جمہوری روایات قائم نہ ہوسکیں۔ ہر آمر کی کوکھ سے اک نئے سیاستدان نے جنم لیا چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو شہید ہوں یا پھر میاں محمد نواز شریف۔ پھر انہی سیاستدانوں نے اپنے بانیوں کے خلاف بغاوت کی اور اپنی علیحدہ سیاسی قوت کو نہ صرف منوایا بلکہ بار بارقید و بند کی صعوبتوں کو بھی برداشت کیا یہاں تک کہ سیاسی موقف پر کھڑے رہنے کی پاداش میں جان بھی گنوا بیٹھے۔ اگر بات کی جائے عمران خان کی توانکا معاملہ اُلٹ ہے۔ اپنی سیاسی جدوجہد میں آمروں و غیر منتخب قوتوں کے ذریعے اقتدار میں آنے کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہے مگر سال 2018ءمیں انہی طاقتوں کے کندھوں پر سوار ہوکر پاکستان کے چیف ایگزیکٹو بن بیٹھے۔ عمران خان نے اپنے ہر سیاسی اُصول، ضابطے پر نہ صرف یو ٹرن لیا بلکہ یوٹرن لینے کو عظیم سیاسی دانشمندی قرار دیا۔ اپنی ذاتی تسکین کی خاطر چُن چُن کر سیاسی حریفوں خصوصا انکی خواتین کو قید و بند کی صعوبتوں میں دھکیلا۔ کسی کو کرپشن تو کسی کو منشیات جیسے گھناؤنے اور جھوٹے مقدمات میں ملوث کرواتے رہے۔ چور، ڈاکو، کرپٹ مافیا جیسے القابات سے سیاسی حریفوں کو پکارتے رہے۔ مگر دوسری جانب اپنی سیاسی جماعت و کابینہ میں دنیا جہاں کے رنگ باز اور کرپٹ ترین افراد کو اپنی بغل میں لئے بیٹھے رہے۔ عمران خان کا شمار گنتی کے چند گنے چنے سیاستدانوں میں کیا جاسکتا ہے کہ جن کے دور حکومت میں پاکستان کے تمام ریاستی ادارے، میڈیا مالکان یہاں تک کہ عدلیہ میں بیٹھے سہولت کاراور کچھ مذہبی قائدین بھی ایک صفحہ پر تھے۔ وزارت عظمی ٰ کی کُرسی پر براجمان ہوکر عمران احمد خان نیازی نے سیاست کی معراج کو پالیا۔ کرکٹ کی بدولت کروڑوں پاکستانیوں و غیرملکیوں کے دلوں پر راج کرنے والے سابق وزیراعظم پاکستان و بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جیل یاترہ کو چارسو سے زائد دن گزر چکے ہیں اور مستقبل قریب میں انکی رہائی کے آثار نظر نہیں آتے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر گزرتا لمحہ انکو رہائی سے دور کرتا دیکھائی دے رہا ہے۔ ایسی کیا وجوہات بنیں کہ مقبول ترین کھلاڑی و سیاست دان زندگی کا آخری حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پر مجبور ہوا؟ عمران خان کو اس حال میں پہنچانے والا کون ہے؟ وہ کون ہے جو انکو جیل کی سلاخوں سے نکلنے نہیں دے رہا؟ میری ناقص رائے میں عمران خان کا دشمن کوئی اور نہیں ہے بلکہ خود عمران خان اپنی ذات کے دشمن ہیں۔ پاکستان کے معروضی حالات میں دیکھا جائے تو بات سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ طاقتور حلقے پاکستانی ریاست و سیاست کے طے شدہ سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں۔ طاقتور حلقوں نے پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں عمران خان کو متبادل قیادت کے طور پر آزمانے کا فیصلہ کیا۔ مگر انکا یہ تجربہ ناکام رہا اور انہی کے گلے پڑگیا۔ عمران خان جو بظاہر کرپشن کے خلاف جنگ کے علمبردار بن کر سامنے آئے مگر افسوس انکے اپنے قریبی حلقے کرپشن کا مرکز بن گئے۔ انہی طاقتور حلقوں نے انکے گھر میں پائی جانے والی کرپشن داستانوں کو منظر عام پر لاکر پیش کیا؛ کاش عمران خان رشتوں ناطوں کی پرواہ کئے بغیر کرپشن الزامات کی سرعام تحقیقات کرواتے بلکہ دنیا کے لئے مثال قائم کرتے ہوئے اپنے قریبی حلقوں کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے راہ ہموار کرتے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ جس عہدیدار نے ان تک کرپشن رپورٹس پیش کیں انہی کو اس عہدہ سے ہٹوا دیا۔ بات یہیں پر نہیں رکی؛ اس شخص کو ادارے کی سربراہی سے دُور رکھنے کے لئے ہر ممکن کوششیں جاری رکھیں۔ کہتے ہیں ناں کہ دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے۔ آج وہی شخصیت پاکستان کے سب سے طاقتور ادارے کی سربراہ بن چکی ہے۔ جن طاقتور حلقوں نے مسند اقتدار کے مزے کروائے مگر چند اختلافات کی بناء پر عمران خان انہی کے خلاف ہوگئے۔ سرعام اور سربازار انکو دھمکیاں اور گالیاں دیتے دیکھائی دیئے۔ بحیثیت سیاست و قانون کے طالب علم میرے لئے یہ بات ہضم کرنا بہت مشکل تھی کہ جیل میں عمران خان کو میڈیا ٹاک کی کھلی آزادی کیوں دی جارہی ہے۔ جیل سے عمران خان کے آئے روز کے بیانات، دھونس، دھمکیوں سے یہ بات عیاں ہوئی کہ منصوبہ ساز اپنے منصوبوں میں کامیاب رہے۔ پس پردہ پی ٹی آئی پارٹی عہدیدران جتنی محنت سے طاقتور حلقوں سے معاملات سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں؛ عمران خان کی زبانی گولہ باری سے معاملات کئی گنا زیادہ خراب ہوجاتے ہیں۔ دوران اقتدارسیاسی لیڈرشپ سے تعلقات خراب رکھے اور ساتھ ہی ساتھ دوست ممالک سے تعلقات کو خراب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انکی دادرسی کے لئے کوئی آگے نہیں آرہا۔ میری نظر میں عمران خان کا دشمن صرف عمران خان ہیں جنہوں نے عمران خان کو اس حال تک پہنچا دیا ہے۔