دشتِ امکاں
بشیر احمد حبیب
( پہلا حصہ )
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
بقول سلیم احمد فضائے ادب میں یہ سوال کہ غالب کون ہے ؟ ہمیشہ گونجتا رہے گا مگر ہرعہد کو اس کا جواب contemporary علوم معروضی حالات اور اس میں پروان چڑھتے ہوئے اجتماعی شعور سے تلاش کرنا ہو گا ۔ اور وقت نے بھی یہی ثابت کیا۔ سلیم احمد کے دور میں غالبؔ کی شہرت برصغیر پاک و ہند کے گلی کوچوں سے نکل کر یورپ اور امریکا کے بازاروں اور چین اور روس کے مکینوں تک پہنچ چکی تھی یہاں تک کہ انکے دور میں رسلؔ صاحب بھی کہتے نظر آئے کہ غالبؔ کون ہے ؟
سلیم احمد کی کتاب غالب کون ؟ کی اشاعت کو پچاس سال سے زیادہ ہو چکے اور اس دوران ڈجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کا سیلاب پرنٹ میڈیا کو خس وخاشاک کی صورت بہا کے لے گیا ۔ اور اب صورت یہ ہے کہ سلیم احمد کے شاگرد احمد جاوید صاحب غالب اور میر پر گھنٹوں سے زیادہ طوالت کے V Logs کرتے ہیں اور ان کی شاعری کی نئی جہتیں کھول کر خواص کو محظوظ کرتے ہیں اور عوام کو confuse کرتے ہیں۔
اب غالب کی شہرت کا عالم یہ ہے کہ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں سائنس اور میڈیکل پڑھنے والے اساتزہ اور سٹوڈنٹس غالب کی مجالس یوں منعقد کر رہے ہیں گویا بقول عبدالرحمٰن بجنوری غالب معلم غیب کے درجے پر فائز ہیں۔
ایسا کیوں ہے ۔ کہ جو شہرت غالب کے حصے میں آئی وہ کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہیں ہوئی ۔ گو شاعروں کا تقابلی جائزہ لینا کسی طور پر بھی جائز روایت نہیں مگر دیکھا گیا ہے ادب کے خواص نے میر کو اوپر رکھا اور عوام نے غالب کو ۔ حالانکہ ہونا اس کے بر عکس چاہیئے تھا کہ غالب عام فہم نہیں۔
فراق گورکھپوری نے پہلے پھر حسن عسکری نے اپنے تنقیدی کام میں میر کو برتر کہا ، سلیم احمد نے انہی کی تقلید کی اور آ ج یہی روایت احمد جاوید اور نوید صادق آ گے بڑھا رہے ہیں.
سلیم احمد کی کتاب غالب کون ؟ اور اس سے پہلے اور بعد کا تنقیدی کام پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے آپ شاعر کا نہیں کسی نفسیاتی مریض کا تجزیہ پڑھ رہے ہیں ۔ مثلاً
۔ جیسے کہ ہم ہیں
۲۔ جیسا ہم تصور کرتے ہیں اور
۳۔ جیسے ہم دوسروں پر ظاہر ہوتے ہیں یا کرتے ہیں۔
وغیرہ وغیرہ.
اصل بات یہ ہے غالب جس فکری اور ادبی فضا میں سانس لے رہا تھا اس میں فردوسی، عمر خیام، رومی،سعدی، جامی اور بیدل جیسے شعرا کے علم الکلام کی مہک تھی جو غالب کے شعور کا حصہ بنی ، اس نے ابن عربی , ابن خلدون جیے مفکر اور فلاسفرز کی پیدا کردا اجتماعی فکری شعور کی فضا میں گہرے سانس لیے اور دل و دماغ معطر کیے۔
غالب مصور تھا اور اس کے رنگ لفظ ، اور اس نے لفظوں سے وہ فکری بت تراشے جسے دیکھتے ہی لطف و آ گہی کی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو تا دیر ذہن کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے۔
غزل کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ وہ اترتی ہے غزل کہی جاتی ہے ۔ قافیہ ردیف اور بحر کی پابندی شاعر کو مشق سخن کے لیے کینوس مہیا کرتی ہے، اور شاعر قافیہ میں آنے والے لفظوں کے امکانات پر اپنے شعور اور لاشعور سے لفظوں سے پینٹنگ بناتا ہے ۔ فکر کے وہ بت کھڑے کرتا ہے جو دیکھنے والی آ نکھ اور سوچنے والے ذہن کو مہبوت کر دیتے ہے ۔ یہ ہے غالب۔
غالب وہ ہے , جب ہمیں اپنی فکر کے ابلاغ کے لیے پیرایہ اظہار میسر نہ ہو اور وہ ہمیں اس سے نواز دے اور خوشی و بے خودی کی کفیت سے سرشار کر دے۔ اس حوالے سے غالب کا یہ شعر دیکھئے
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
اب دیکھئے غالب کا کمال ۔۔ پہلے مصرعے میں جدید نفسیات کا خلاصہ کردیا اور دوسرے مصرعے میں کائنات کی وسعتوں کے جتنے بھی امکان آج سامنے آ چکے ہیں ان کی قلعی اتار کے رکھ دی ہے ۔۔
مثلا ہم قریب ترین ستارے کی جس روشنی کو زمین پر دیکھتے ہیں وہ کئی لائٹ سالوں کے بعد ہم تک پہنچتی ہے جب کے روشنی تقریبآ تین لاکھ کلو میٹر پر سیکنڈ سفر کرتی ہے اور ایک سال میں تقریبآ 10بلئین کلو میٹر فاصلہ طہ کرتی ہے پھر بھی کئی سال کے بعد زمین تک پہنچتی ہے ۔۔۔
یہ زمین سے ایک ستارے کے فاصلے کا احوال ہے اور اس کائنات میں عربوں ستارے گلیکسیاں اور گلیکسیوں کے جتھے ایسے خلا میں اڑتے پھر رہے ہیں جیسے آ ندھی میں فضا میں خاک کے ذرے اڑتے ہیں۔
جب آ ج کا سائنس پڑھنے والا شعر کو اس بیک گراؤنڈ میں دیکھتا ہے اور اس نسبت کو سمجھتا ہے جو غالب نے اس شعر میں دشتِ امکاں کی ، تمنا کے مقابل رکھ دی ہے تو وہ غالب کے اس فکری پیکر کو دیکھتے ہی اس کی فکری سحر انگیزی سے مہبوت ہو جاتا ہے۔
اسی مفہوم کے ابلاغ کے لیے غالب کی ایک اور فکری تصویر دیکھیے ۔۔
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں۔
غالب جس بالغ فضا میں سانس لے رہا تھا اور مذہبی طور پر جو بلوغت اس کے حصہ میں آئی تھی اور اس بلوغت میں جو لطیف نکتہ آفرینیاں وہ پیدا کر رہا تھا اس کی جھلک اس شعر میں ملتی ہے۔
اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہہ کے غالبؔ گنبد بے در کھلا
سلیم احمد نے یہ بھی لکھا سب سے بڑی بات یہ کہ غالب منبعِ تصوف علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے غلام تھے۔ جب کہ جوشؔ صاحب تو یہاں تک کہہ گئے غالبؔ اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے محبت نہ کرتا تو بہت بڑا دہریہ ہوتا:
غالبؔ ندیم