ویسے تو ہر معاشرے اور خاندان میں بڑے قد کے چھوٹے لوگ کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن میرا آج کا کالم صرف ملکی سیاست کے میدان میں ان کی نشاندہی اور کردار کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
یہ بڑے قد کے بونے ہر دور کے حکمرانوں کے ساتھ کچھ اس خوبی کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں کہ ہر شادی میں ڈھول بجانے والے میراثی بھی ان کو اپنا گرو سمجھ لیتے ہونگے۔ جمہوری حکومت ہو یا فوجی یہ اس کی اولین ضرورت بن جاتے ہیں کیونکہ مخالفین پر الزام تراشیاں اور گالیاں دینے کا فریضہ ان سے بہتر کوئی ادا نہیں کر سکتا۔ یہ بے شرم جب فائدہ دیکھیں تو اک گھاگ طوائف کی طرح یار بدل لیتے ہیں۔ حکومتی جماعت ہو، حسب اختلاف ہو یا کوئی ادارہ یہ بڑے قد کے چھوٹے لوگ اپنے مقاصد اور لالچوں کے زیر اثر اس کا حصہ بن کر اپنے کردار اور زبان سے شرافت کو شرمندہ کرتے رہتے ہیں۔
ان بےشرم بونوں نے جمہوری روایات کو اتنا داغدار اور بدنام کر دیا ہے کہ مہذب اور پروقار لہجوں والی سیاست اب گالم گلوچ، وڈیوز اور ننگے الزامات کا دوسرا نام بن چکی ہے۔ حکمرانوں اور اداروں کے تلوے چاٹنے اور قصیدہ خوانی کے دم پر اپنا روزگار چلانے والے یہ چھوٹے لوگ پاکستان کی سیاست کو لوہے پر لگے زنگ کی طرح چاٹ چکے ہیں۔
یہ بھی اک حقیقت ہے کہ ان کی کامیابی میں اک بڑا کردار میدانِ صحافت کے بونے اینکر پرسنز کا بھی ہے۔ چند اچھی ساکھ والے اینکر پرسنز کو چھوڑ کر باقی سب اسی قبیلے کا حصہ ہیں۔ یہ جمہوریت دشمن عناصر کے ایجنڈے پر کام کر کے اپنی اور ان کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ زرد صحافت کے علمبردار ان ماہرین اور تجزیہ کاروں نے سول ملٹری تعلقات کی خرابی اور جمہوری عدم استحکام میں سب سے بڑا رول ادا کیا ہے۔ سیاست اور صحافت دونوں میں ایسے بڑے قد والے بونوں نے وہ وہ گل کھلائے ہیں کہ اگر ہلکی سی غیرت ہو تو یہ اپنے کرتوتوں پر سوچتے ہی مر جائیں لیکن ان کا تو ایک ہی قول ہے کہ:
“عزت آنے جانے کی چیز ہے، بس بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے۔”
ان لوگوں کا ماضی پھرولا جائے تو ہر حکمران کے ترجمان اور ہر بوٹ کے پالشی نظر آتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ عوام سمیت سب ان کو پہچان کر بھی ان سے جان چھڑا نہیں پاتے۔ ہر دسترخوان پر بیٹھنے والے ان بڑے قد کے چھوٹے لوگوں نے پاکستان کی سیاست کو اتنا گندہ کر دیا ہے کہ اب اس کا پاک ہونا اک مشکل ترین عمل بن گیا ہے۔ یہی لوگ ریاست کے چارستونوں یعنی حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا میں تصادم کی کیفیت لا کر فوجی حکومتوں کا حصہ بھی بن جاتے ہیں اور پھر جمہوریت کا راگ الاپ کر نئی حکومت کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔ یہ مارشل لاء کے حق میں دلائل دیتے ہیں، پھر پانچ سال اس کے مزے بھی لیتے ہیں اور اس کے بعد جمہوریت کے چیمپئین بننے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ایسی فضا پیدا کرتے ہیں کہ کوئی بھی جمہوری حکومت تین سال سے زیادہ عرصہ نہیں نکال پاتی۔
اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کا اس بات متفق ہوجانا بہت ضروری ہے کہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے والوں کا متحد ہوکر مقابلہ کیا جائے اور تمام اختلافات کو پارلیمنٹ کے فورم پر حل کیا جائے۔ عوام کو بھی سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو بلا تفریق مسترد کرنا چاہیے۔ ہر بڑے قد کی وہ چھوٹی پارٹی یا لوگ جو ملک میں مارشل لاء یا آرمی جیسے بہترین ساکھ کے ادارے کو سیاست امور میں دھکیلنے کا باعث بنتے ہیں انہیں آڑے ہاتھوں لے کر ان کا سیاست میں حصہ لینا مشکل بنا دینا چاہیے۔ فوج اور عدلیہ میں نظریہء ضرورت کے تحت میرٹ کو پائمال کرنے والی جماعتوں اور زرد صحافت کے جھنڈے تلے پلنے والے اینکرز کی جمہوریت دشمن سوچ اور تبصروں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ اسلامی جمہوری پاکستان کی بقا اور اچھی جمہوری ساکھ کے لیے یہ ہمارا قومی فرض بنتا ہے کہ اس ملک کی بیرونی دنیا میں جمہوری شکل مسخ کرنے والے بڑے قد کے چھوٹے لوگوں اور قوتوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں کیونکہ اسی میں ہماری اور ہمارے ملک کی بقا ہے۔