زبان کی دھار تیز ہو جائے تو سمجھ جاؤ 

تحریر: رخسانہ سحر
ہم اکثر کسی کی تلخ بات سن کر چونک جاتے ہیں، کبھی کسی کا طنز دل پر تیر کی طرح لگتا ہے، تو کبھی کسی کی سخت زبان ہمارے ضبط کے بند توڑ دیتی ہے۔ مگر شاید ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ زبان کا تیز ہونا ہمیشہ صرف بدتمیزی نہیں ہوتا، یہ اکثر ایک گہرے زنگ آلود ذہن کی چیخ ہوتی ہے۔
یہ ایک نکتہ ہے جو ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے:
“زبان کے دھار تیز ہو جائے تو سمجھ جاؤ دماغ کو زنگ لگ چکا ہے۔”
دماغ جب صحت مند ہو، خیال شفاف ہوں، نیتیں صاف ہوں، تو زبان نرم، مہربان اور متوازن رہتی ہے۔ لیکن جب ذہن شکوے، حسد، مایوسی، یا احساسِ کمتری سے سڑنے لگے، تو زبان پہ وہی زنگ جھلکنے لگتا ہے۔
تیز زبان دراصل بیمار ذہن کا شور ہوتا ہے۔
ایسا ذہن جو اندر سے گھُٹ رہا ہو، جو اپنے زخموں کی مرہم نہیں ڈھونڈ پایا ہو، جو اپنی ناپوری خواہشوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال کر ہلکا ہونا چاہتا ہو۔ ایسے لوگ ہر بات میں خار ڈھونڈتے ہیں، ہر رشتے میں حساب رکھتے ہیں، اور ہر جملے میں اپنا زہر انڈیلنے سے باز نہیں آتے۔
مگر یہ زہر دراصل دوسروں کے لیے نہیں، خود ان کے اپنے وجود کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔
کیونکہ دوسروں کو کاٹنے والی زبان، سب سے پہلے اپنے بولنے والے کو تنہا کر دیتی ہے۔
ایسی زبان وہ ہتھیار بن جاتی ہے جو محبت کے رشتے کاٹ دیتی ہے، اعتماد کے پل توڑ دیتی ہے، اور عزت کے کتبے گرا دیتی ہے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ زبان کا دھار تیز ہونے سے پہلے دل زخمی ہوتا ہے، اور دل زخمی ہونے سے پہلے ذہن بیمار ہوتا ہے۔
تو جب کبھی آپ کسی کو غیر ضروری سخت، کٹیلے جملے کہتے دیکھیں…
تو اس پر غصہ نہ کریں، بلکہ سوچیں کہ شاید وہ اندر سے بہت بوسیدہ ہو چکا ہے۔
اور اگر کبھی آپ خود محسوس کریں کہ آپ کی زبان کٹھور ہو رہی ہے، لہجہ تلخ، جملے چبھتے جا رہے ہیں… تو رک جائیے۔
اپنے اندر جھانکیے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کا دماغ سوچنا چھوڑ چکا ہے، صرف ردعمل دینا جانتا ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے خیالات پر مایوسی کا زنگ چڑھ چکا ہے؟
یاد رکھیے، گفتگو انسان کی شخصیت کا عکس ہوتی ہے۔
اور سب سے مہنگا زیور، خوبصورت لباس، یا اونچی ڈگری نہیں بلکہ نرم، سنجیدہ اور متوازن لہجہ ہوتا ہے۔
لہٰذا زبان کو قابو میں رکھنا صرف تمیز کا مسئلہ نہیں، بلکہ صحتِ فکر کا آئینہ ہے۔
زبان کی حفاظت صرف ایک سماجی تقاضا نہیں، بلکہ ایک روحانی ذمہ داری بھی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
⁠”ما یلفظ من قول إلا لدیه رقیب عتید”
“انسان کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالتا، مگر ایک نگہبان تیار ہے جو اسے لکھ لیتا ہے۔”
(سورۃ ق، آیت 18)
یہ آیت ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ ہمارا ہر لفظ ہمارے نامۂ اعمال میں رقم ہو رہا ہے۔
زبان کی تیزی اگر وقتی فتح دے بھی دے، تو دل کی شکست اور رشتوں کی شکستگی ضرور چھوڑ جاتی ہے۔
کبھی کبھی خاموشی بھی گفتگو سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔
اور کبھی ایک نرم جملہ بھی برسوں کی تلخیوں کا مرہم بن سکتا ہے۔
زبان کو شعور کا، دل کو ظرف کا، اور ذہن کو صفا کا آئینہ بنائیں۔
تاکہ نہ ہم تلخی کا سبب بنیں، نہ کسی تلخی کا شکار کیونکہ
 زبان کی تیزی دراصل ذہنی بانجھ پن کی علامت ہے – جب دلیل، برداشت، اور حکمت ختم ہو جائے، تو انسان زبان سے وار کرتا ہے۔
 تلخ لہجہ اکثر منتشر ذہن اور زنگ آلود فکر کی پیداوار ہوتا ہے – جو لوگ خود سے مطمئن نہیں ہوتے، وہ دوسروں کو کاٹنے لگتے ہیں۔
 خاموشی، گہرائی کی علامت ہے جبکہ تیز زبان، شور زدہ ذہن کی نشانی۔
Comments (0)
Add Comment